مباہلہ کرنے کی دعوت نہیں دی۔ مگر بحکم فللّٰہ الحجۃ البالغۃ اس فقیر نے سنت کے قدم بقدم مرزا کو دعوت مباہلہ دی اور اس کا الٹی میٹم آخری (اعلان) دے کر جھوٹے کو گھر تک پہنچایا اور اس کی اس حجت کو پاش پاش کیا اور چند بار بذریعہ تحریرات مطبوعہ اور اخبارات اس کی اس بے ایمانی کا اظہار ہوا، مرقع قادیانی بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۷ء بھی ملاحظہ ہو۔
قبل اس کے کہ یہ فقیر اس دعوے کا ثبوت ناظرین کے پیش کرے سنت کی تعریف ناظرین کے پیش کرتا ہے تاکہ ناظرین خود اپنے کانشنس میں اندازہ لگا لیں کہ فقیر کا دعویٰ ٹھیک ہے یا نہیں؟ اصول حدیث میں سنت آنحضرت کے فرمان عمل اور ملاحظہ کئے ہوئے امر کو کہتے ہیں۔ فی الجملہ بحکم ربانی: ’’قل تعالوا ندع انبائنا ونسائنا وابنائکم ونسائکم انفسنا وانفسکم‘‘ آنحضرتﷺ معہ حسنؓ وحسینؓ وفاطمہؓ وعلیؓ عازم میدان مباہلہ ہوئے۔ مگر فریق ثانی نے گریز کیا۔
اب آپ بہ نظر انصاف نہ بہ نظر تعصب ورعایت فقیر کی دعوت مباہلہ کو معہ الٹی میٹم کے ملاحظہ کریں اور داد انصاف دیں وہ یہ ہے: ’’پس اب مرزا قادیانی کو چاہئے کہ اس تحریر کو پڑھ کر بہ نیت رفع تردد وانتظار خلق بحکم آیت مباہلہ معاً بناء ونساء میدان مباہلہ میں آئیں اور یہ احقر بھی تفاولاً اتباعاً للسنہ جیسے آنحضرتﷺ پنجتن پاک کے ساتھ مقابلہ نصاریٰ میں نکلے تھے۔ بایماء فی الجملے نسبتے بتو کانی بود مرا بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شود بس است پنجہ الماس یعنی پنجتن اول نفس خود دوم زوجہ خودسوم وچہارم ہردوفرزندان خود پنجم دختر خود کے ساتھ میدان مباہلہ میں بہ یقین فتحیابی خود حاضر ہوتا ہے تاکہ حاکم مطلق بحکم یحق الحق ویبطل الباطل ویمح اﷲ الباطل ویحق الحق بکلمتہ حق وباطل وحق وکید کو حق کے ساتھ متمیز کرے اور حق حق اور فریب فریب ثابت ہو۔ اس سے بڑھ کر احسن اور عمدہ اور کوئی سبیل فیصلہ کی نہیں ہے۔ چنانچہ ناظرین پر ظاہر وباہر ہوا ہوگا (الی) اب مرزا قادیانی کو لازم ہے کہ اس تحریر کے ملاحظہ کے بعد پندرہ یوم کے اندر اندر بذریعہ اشتہار مطلع کریں اور اگر اب بھی مرزاقادیانی کوئی حیلہ وحجت کرکے ٹال جائیں تو لعنت