۱۹۰۱ء میں انہو ںنے اپنے ماننے والوں کو مردم شماری اور رجسٹر میں نام درج کرنے کا حکم دیا۔ ان کے بیٹے محمود بشیر کہتے ہیں۔ ’’یہ سال ان کے اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سال تھا۔‘‘
۱۹۰۳ء میں انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے ایک ماہانہ رسالہ کا اجراء کیا جس کا نام انہوں نے ’’ادیان‘‘ رکھا۔
اور وہ انگریزی اردودونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے بعض مضامین وہ خود لکھتے تھے۔
اسی سال قاضی کرم الدین نامی ایک شخص نے ان پر ’’ہتک عزت‘‘ کا مقدمہ دائر کردیا اور مرزا قادیانی کو اس کی پیروی کے لئے جہلم طلب کیا گیا۔ لیکن عدالت نے انہیں بری قرار دے دیا۔
۱۹۰۳ء میں کابل میں ان کے ایک مبلغ ’’عبداللطیف‘‘ کو دین سے نکل جانے کے الزام میں قتل کردیا گیا۔ اسی سال مرزا قادیانی نے ایک مضمون لکھا جس میں جناب کرم الدین کو خوب گالیاں دیں اور یہاں تک لکھا کہ یہ شخص انتہائی جھوٹا اور کمینہ ہے۔ جناب کرم الدین نے ان پر ہتک عزت کا دوبارہ مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمہ کی پیروی کے لئے مرزا قادیانی کو گورداسپور طلب کیا گیا۔ عدالت نے ان پر پانچ سو روپے جرمانہ عائد کیا۔ مرزا قادیانی نے امرتسر کی عدالت میں اپیل دائر کی ۔ جج چونکہ انگریز تھا اس لئے اس نے پہلے عدالتی فیصلہ کو بدل کر مرزا قادیانی کو بری قرار دے دیا۔
اس کے بعد اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے وہ لاہور اور سیالکوٹ گئے۔ علماء نے اشتہار شائع کیا کہ کوئی شخص ان کی تقریر نہ سنے۔ صرف ایک مرتبہ انہیں تقریر کرنے کی جرأت ہوئی۔ لوگوں نے سخت مخالفت کی اور ان پر کنکریاں مارنے کی کوشش کی۔ لیکن چونکہ ایسے تمام مواقع پر وہ پولیس کی حفاظت اور گھیرے میں ہوتے تھے اس لئے بچ کر نکل گئے اور گاڑی میں سوار ہوکر قادیان پہنچ گئے۔
۱۹۰۵ء میں انہوں نے قادیان میں ایک عربی دینی مدرسہ قائم کیا تاکہ اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے مبلغین تیار کئے جاسکیں۔ اسی سال وہ دہلی گئے جہاں علماء ان کے مقابلہ کے