لئے نکل آئے اور انہیں ایک جگہ بھی تقریر کرنے کا موقع نہ دیا۔ البتہ وہ جس گھر میں ٹھہرے تھے وہاں انہوں نے چند لوگوں کو بلا کر تقریر کی اور اپنے مذہب کے باطل اصولوں کو روشناس کرایا۔ یہاں بھی بعض سننے والوں نے ان کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہیں ناکام ہوکر دہلی سے بھاگ جانا پڑا۔
دہلی سے واپسی میں امرتسر کے ایک ہال میں تقریر کرنے کا پروگرام بنایا۔ علماء نے لوگوں کو ان کی تقریر سننے سے منع کیا۔ مرزا قادیانی جب ہال میں داخل ہوئے اور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کے ایک ماننے والے نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حالانکہ یہ جلسہ رمضان میں دن کے وقت ہورہا تھا۔ جونہی انہوں نے پیالی منہ کو لگائی۔ حاضرین نے شور مچا دیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں مسافر ہوں اور مسافر کو رروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے لیکن ان کی بات کسی نے نہیں سنی اور ایسا ہنگامہ برپا ہوا کہ تقریر چھوڑ کر پولیس کی نگرانی میں ہال سے نکلنا اور اسی وقت شہر سے بھاگنا پڑا۔
۱۹۰۵ء میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا آخری وقت آپہنچا ہے اور اسی موقع پر انہوں نے اپنی وہ کتاب لکھی جسے قادیانی حضرات ’’وصایا‘‘ (الوصیت) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی وہ تین برس تک زندہ رہے۔ اسی موقع پر انہو ںنے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں خدا کی طرف سے ایک قبرستان بنانے کا حکم بذریعہ وحی دیا گیا ہے۔ چنانچہ جو شخص اس قبرستان میں دفن ہونا چاہتا ہے۔ مال کا چوتھائی حصہ جماعت کے خزانے میں جمع کرائے۔
۱۹۰۷ء میں پنجاب میں انگریزوں کے خلاف ایک قومی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تو مرزا قادیانی نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ حکومت سے اپنی وفاداری کے اظہار کے لئے ایک اشتہار شائع کیا جس میں اپنے تمام ماننے والوں کو انگریزوں کا وفادار رہنے اور قومی تحریک کو کچلنے میں ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کا حکم دیا اور یہی ماننے والوں نے کیا۔
اسی سال لاہور میں تمام مذاہب کی مشترکہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں تمام مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس میں پڑھے جانے کے لئے مرزا قادیانی نے ایک مضمون لکھ کر بھیجا۔ جب ایک قادیانی یہ مضمون پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو بہت سے لوگوں نے اس پر آوازے کسے اور اس کا مذاق اڑایا۔