رہیں۔ کیونکہ اگر وہ جھوٹے ہوئے تو اس عرصہ میں ان کی قلعی از خود کھل جائے گی اور اگر سچے ہوئے تو اتنا عرصہ اس چیز کے لئے کافی ہوگا کہ علماء حق ان کو پہچان کر اس عذاب سے بچ جائیں جو اللہ تعالیٰ اپنے دین کے دشمنوں اور رسولوں کو جھٹلانے والوں پر نازل کرتا ہے۔
لیکن علماء اتنے بھولے اور سادہ لوح نہ تھے کہ ان پر مرزا قادیانی کی یہ مکاری چل جاتی۔ انہوں نے مرزا قادیانی کی یہ تجویز ماننے سے انکار کردیا اور ان کی مخالفت کرنے او ر مسلمانوں کو ان کے مکروفریب سے باخبر کرنے کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔
اسی سال مرزا قادیانی کو ایک چال اور سوجھی جس سے مخالفین کا منہ بند کیا جاسکے اور پھر اپنی تبلیغ کا سلسلہ اطمینان سے جاری رکھا جاسکے۔ انہوں نے وائسرائے کے حضور درخواست دائر کی کہ ہندوستان میں جو بے چینی اور فسادات کی کیفیت جاری ہے اس کی اصل وجہ مذہبی بنیادوں پر تفرقہ بازی اور آئے دن کے جھگڑے ہیں۔ اس لئے ایک ایسا قانون جاری کرنا ضروری ہے جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو یہ حق دیتا ہو کہ وہ عام لوگوں کو اپنے مذہب کے حقائق سے باخبر کرسکیں اور دوسروں کی دخل اندازی اور غوغا آرائی سے بھی محفوظ رہیں۔
۱۸۹۸ء میں انہوں نے اپنے ماننے والوں کے لئے یہ قانون جاری کیا کہ ان میں سے کوئی شخص اپنی بیٹی کسی ایسے شخص کے نکاح میں نہ دے جو ان کی نبوت کی تصدیق نہ کرتا ہو۔ اسی سال انہوں نے قادیان میں ایک اسکول بھی قائم کیا جس میں نوجوانوںکو احمدیت کے اصولوں پر تربیت دی جاسکے۔
۱۹۰۰ء میں انہوں نے قادیان میں ایک مسجد تعمیر کی لیکن ان کے بعض رشتہ داروں نے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے چنگل میں پھنسنے سے محفوظ رکھا۔ اس مسجد کے عین سامنے ایک دیوار بنا ڈالی۔ اس دیوار کی موجودگی میں مرزا قادیانی کے ماننے والوں کو مسجد تک پہنچنے کے لئے لمبا چکر کاٹنا پڑتا تھا، چنانچہ مرزا قادیانی نے اپنے ان رشتہ داروں کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ انگریز جج نے فیصلہ دیا کہ مسجد کے سامنے سے اس دیوار کو ہٹا دیا جائے۔
اسی سال انہوں نے اپنے ماننے والوں کو خطبہ دیا جس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا اور جسے قادیانی حضرات مرزا قادیانی کے معجزات میں شمار کرتے ہیں۔ آگے چل کر ہم اس بکواس اور بے سروپا باتوں کا ہلکا ساتذکرہ کریں گے جو اس ’’الہامی خطبہ‘‘ میں پائی جاتی ہیں۔