دوسرے علماء اصرار کرتے رہے کہ حق وباطل کو جاننے کے لئے مناظرہ ضروری ہے اور مرزا قادیانی کی پیش کردہ دعوت مباہلہ محض میدان سے بھاگنے کی ایک چال ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بعد دہلی کے مسلمانوں نے مولانا محمد بشیر صاحب کو مرزا قادیانی سے مناظرہ کے لئے بھوپال سے بلایا۔ اس کا ذکر مرزا قادیانی کے صاحبزادہ مرزا محمود نے کیا ہے۔ اور پھر صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’یہ مناظرہ شائع کیا گیا۔‘‘
۱۸۹۲ء میں مرزا قادیانی پھر لاہور گئے۔ وہاں ان کے اور ایک عالم دین مولانا عبدالحلیم صاحب کے درمیان مناظرہ ہوا۔
اس مناظرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی مرزا قادیانی کے صاحبزادہ مرزا محمود نے کچھ نہیں بتایا کہ مناظرہ کیسا رہا اور اس میں کامیاب کون رہا؟ ۱۸۹۶ء میں لاہور میں ایک ’’مذہبی کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں کئی مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ مرزامحمود کہتے ہیں کہ اس کانفرنس کی تجویز خود مرزا قادیانی نے پیش کی تھی اور اس تجویز سے ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے اپنے پیغام کی حقیقت واضح کریں۔ قادیانی حضرات کا کہنا ہے کہ جب مرزا قادیانی نے اپنا وہ مقالہ لکھنا شروع کیا جسے کانفرنس میں پڑھنا چاہتے تھے تو انہیں سخت دست آنے لگے۔ لیکن انہوں نے اسے مکمل کرکے دم لیا۔ قادیانی حضرات کے دعویٰ کے مطابق مرزا قادیانی کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ ان کا مقالہ کانفرنس میں پڑھے جانے والے تمام مقالوں سے برتر ہوگا۔ قادیانی یہ بھی کہتے ہیں اس وقت مرزا قادیانی کے ماننے والوں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہ تھی۔
۱۸۹۷ء میں ترکی کے سفیر حسین کامی نے مرزا غلام احمد کو ملاقات کی دعوت دی۔ لیکن مرزا قادیانی نے یہ دعوت قبول نہ کی تو حسین کامی از خود ان سے ملاقات کے لئے پہنچ گئے۔ مرزا قادیانی نے ان کے سامنے بھی دعویٰ کیا کہ مجھ پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔ واپس آنے کے بعد حسین کامی نے لاہور کے بعض اخبارات میں مضمون شائع کرایا۔ جس میں مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کی سخت مخالفت کی۔ اس مضمون کا یہ اثر ہوا کہ پنجاب کے مسلمانوں میں مرزا قادیانی کی مخالفت اور شدت اختیار کرگئی۔
اسی سال ’’الصلح خیر‘‘ کے نام سے مرزا قادیانی نے ایک اشتہار شائع کرایا۔ جس میں علماء کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ دس سال تک ان کی مخالفت کرنے اور انہیں برا بھلا کہنے سے باز