دفتر میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ابھی انہیں ملازم ہوئے چار برس ہوئے تھے کہ ان کے والد کو اپنے ذاتی کاروبار میں ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ والد کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے وہ ملازمت چھوڑ کر قادیان واپس آگئے۔
۱۸۷۶ئ۱؎ میں ان کے والد بیمار ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے ازروئے وحی بتایا گیا ہے کہ میرے والد مغرب کے بعد وفات پاجائیں گے۔ قادیانیوں کے دعویٰ کے مطابق یہ سب سے پہلی وحی تھی جو مرزا قادیانی پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد و ہ آئے دن طرح طرح کے خیالات ظاہر کرنے لگے۔ اور اس دعویٰ کے ساتھ یہ کہ سب باتیں انہیں بذریعہ وحی بتائی جاتی ہیں۔ مسلمان ان میں سے کوئی بات تسلیم نہ کرتے تھے اور انہیں جھوٹ قرار دیتے تھے۔
مرزا قادیانی پنجاب کے ایک دوسرے شہر لودھیانہ گئے اور پہنچتے ہی ایک اشتہار شائع کیا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں جس کا مسلمان انتظار کررہے تھے۔ علماء نے ان کے اس دعویٰ کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اسے بھی جھوٹ قرار دیا۔ اس موقع پر جن علمائے دین نے مرزا قادیانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ان میں ایک ماہنامہ ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ کے ایڈیٹر مولانا محمد حسین بٹالوی تھے۔ انہوں نے مرزا قادیانی سے مناظرہ کے لئے بہت سے علماء کو لودھیانہ بلایا۔ لیکن وہاں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے جو ہر طرح سے مرزا قادیانی کی حمایت کررہا تھا۔ مناظرہ کرنے کی اجازت نہیں دی اور مولانا محمد حسین سمیت تمام علماء کو نوٹس دیا کہ اس روز شہر سے نکل جائیں۔
پھر مرزا قادیانی دہلی آئے اور اپنے خیالات کا پرچار کیا۔ علماء نے سخت مخالفت کی اور مرزا قادیانی کو مناظرہ کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے یہ بھی طے کرلیا کہ مناظرہ میں مسلمانوں کی طرف سے صرف مولانا نذیر حسین صاحب محدث ہی بولیں۔ لیکن مرزا قادیانی نے مناظرہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ البتہ جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں۔ انہوں نے مولانا نذیر حسین صاحب کو مباہلہ کی دعوت دی یعنی یہ کہ وہ قسم کھائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اس کے بعد اگر وہ ایک سال تک زندہ رہیں اور اس عرصہ میں ان پر کوئی آفت نازل نہ ہو تو سمجھ لیا جائے گاکہ مرزا قادیانی اپنے دعوائے نبوت میں جھوٹے ہیں۔ لیکن مولانا نذیر حسین صاحب اور
۱؎ مرزا غلام احمد اپنی کتابوں میں چونکہ انگریزی تاریخ ہی استعمال کرتے ہیں اس لئے ہم بھی یہی تاریخ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔