یہ کجی اور گمراہی صرف ان ہی لوگوں تک محدود نہیں رہتی جو جاہل ہونے کے باوجود دین کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر غور رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جیسا کہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے بعض باطل فرقوں کے سربراہوں کا حال تھا۔ بلکہ یہ کجی اورگمراہی آگے بڑھ کر کچھ ایسے لوگوں کو بھی دنیا کے سامنے لاتی ہے جو یہ تک دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ ان پر آسمان سے وحی اترتی ہے اور یہ کہ وہ اپنی زبان سے جو اول فول بکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پاک اور رسول کریمﷺ کی حدیث کے واسطہ کے بغیر خود خدا کا ان کے دلوں میں ڈالا ہوا ہے۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والے بعض تو ایسے ہوتے ہیں جن کا سلسلہ ان ہی تک محدود رہتا ہے۔ اور آگے نہیں بڑھتا جیسے حارث بن سعید جس کا ظہور عبدالملک بن مرو ان کے عہد میں ہوا اور عبدالملک بن مروان نے اسے قتل کیا۔ دنیا میں اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ اسی طرح ایک شخص اسحاق اخرس نامی تھا جو سفاح کے زمانہ خلافت میں منظر عام پر آیا اور بہت سے لوگ اس کے پیرو ہوگئے۔ وہ جونہی قتل ہوا اس کا فتنہ ہمیشہ کیلئے دب گیا۔ تاہم بعض مدعیان نبوت ایسے بھی تھے جن کی دعوت کا اثر ان کی موت کے بعد بھی باقی رہا جیسے حسین بن حمدان خصیبی جس نے حماۃ اور لاذقیہ کے کوہستانوں میں اس باطل فرقہ کی اشاعت کی جس سے آج بھی نصیری تعلق رکھتے ہیں۔ قادیانی فرقہ کا بانی مرزا غلام احمد اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمیں عرب اور غیر عرب ممالک، جیسے امریکہ سے اس مضمون کے متعدد خطوط موصول ہوئے کہ اس فرقہ کی حقیقت اور اسلام سے اس کے تعلق کو واضح کیا جائے۔ خطوط کا یہ سلسلہ اس وقت خاص طور پر شروع ہوا جب ’’قاہرہ‘‘ کے ماہنامہ ’’نور الاسلام‘‘ (جلد۱ شمارہ۵) میں ہمارا وہ مضمون شائع ہوا جس میں ہم نے بہائی فرقہ کی نقاب کشائی کی تھی۔ بعض خطوط میں اس فرقہ کے مبلغین کی بعض عجیب وغریب آراء کا ذکر کرکے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ان آراء پر تنقید کی جائے اور مسلمانوں کو ان کی ہلاکت آفرینیوں سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ آج تک جو ہم نے اس فرقہ سے متعلق کچھ لکھنے سے احتراز کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاس اس فرقہ کی اصل کتابیں اتنی نہ تھیں کہ ان سے اس کی بنیاد کو سمجھا جاسکے۔ اور لوگوں کو بتایا جاسکے کہ جن لوگوں نے اسے گھڑا ہے۔ ان کی حالت در حقیقت کیا ہے؟