چاہئے۔ (احمد مصلح عالم۔ اس کے دعاوی اور ہدایت اسی کے الفاظ میں سکندر آباد ۱۹۴۰ء ص۵۴۔ احمدیوں کے نزدیک جو مسلمان فرقہ احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے وہ حقیقتاً کافر ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ شروع ہی سے اس قسم کا اختلاف احمد (مرزاقادیانی) اور اس کے متبعین کے خلاف مسلمانی حلقوں میں سخت مخالفت پیدا کرتا ہے۔ اس مخالفت کو اس خاص مقصد سے اور بھی زیادہ تقویت پہنچتی ہے۔ جو احمد (مرزاقادیانی) اور اس کے پیرووں کو انگلستان کی طرف ہے۔ بحال ہونے والا اسلام انگلستان کو اپنا جانی دشمن پاتا ہے۔ ہندوستان مشرقی قریب اور مصر کے مسلمان ہر اجنبی اور سب سے اول انگریزی حکومت کو اپنے اوپر سے بلاشرط دھتکارتے ہیں اور اپنا سہارا اورقوت اس قومی تحریک میں پاتے ہیں جو اسلام میں اٹھ رہی ہے۔ مرزا غلام احمد جو ایک خدا کی حکومت امن کی جو مذہبی اور اخلاقی قوتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ تبلیغ کرتا ہے۔ شروع سے جہاد کرنا ناجائز کہتا ہے۔ اس پناہ اور آزادی نے جو اس کی مذہبی تحریک کو اس کے دشمنوں کے سخت سے سخت ایذا رسانی کے مقابلہ میں انگریزی قانون کی بدولت حاصل ہے۔ اس کی نظر میں ہندوستان میں حکومت انگریزی کو ’’رحمت اوربرکت‘‘ قرار دیا۔ (گیم بک مندرجہ بالا ص۳۷) گورنمنٹ انگریزی کی بے چون وچرا اطاعت تحریک احمدیہ کا واضح طور پر بیان کیا ہوا آج تک اور ہمیشہ کے لئے ایک بنیادی اصول ہے۔ بہت سے مقامات مذکورہ بالا کتاب کے اور خاص کر ایک چھوٹی سی کتاب موسومہ ’’اے پریذیڈنٹ ڈ ایچ۔ آر۔ ایچ دی پرنس آف ویلز فرام دی احمد یہ کمیونٹی ’’کلکتہ ۱۹۲۲ء صفحات ۱ تا ۵ وغیرہ )اگر احمدی بجان ومال شاہی احکام کی تعمیل کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ اے پریذیڈنٹ وغیرہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’’جب کبھی ملک معظم کو ہماری خدمات کی ضرورت لاحق ہو۔‘‘ تو ہر شخص اس بے اعتباری کی وجہ دیکھ سکتا ہے جو موجودہ حالت میں ان پر جاتی ہے۔ اور انگلستان کی بڑی بیوقو فی ہوگی۔ اگر وہ ایسے آلہ کا وقت پر استعمال نہ کرے احمدیہ تحریک اس لئے اسی اثناء میں بڑھ گئی ہے۔
صدر مقام قادیان میں ہے جہاں ’’مقدس نبی‘‘ متولی نے مولوی نور الدین کو خلیفہ مقرر کیا جس کی جگہ موجودہ دوسرا خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کام کرتا ہے…یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تعمیر ہونے والی مسجد کا خرچ پوری طرح سے دولت مند احمدی مستورات برداشت کریں گی جو سونا اور جواہرات پیش کرتی ہیں۔ (احمدی تبلیغی پرچہ ’’مسلم سنرایز۔ شکاگو ج۴ ص۲،۳)