آپ جو احمدیہ تحریک کے بانی کے متعلق شائع کرتے ہیں جس کو آپ ’’مصلح اسلام۱؎‘‘ کہتے ہیں۔ بجائے اس کو حقیقت میں ایک کاذب قرار دینے اور برٹش شہنشاہیت کے لئے اسلام کو جھٹلانے والے کے اس بدقسمت خیال کا یہ کافی جواب نہ ہوگا۔
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) تحریک کی حمایت اور اشاعت میں اپنی آمدنی کا دس فیصدی ادا کرتے ہیں۔‘‘
دارورٹس کے چیف ایڈیٹر کو ضرور آزادی ہے کہ جس گروہ کی حمایت کرنا چاہے۔ اس کے ساتھ ہمدردی یا نفرت کرے۔ مگر یہ امر ہم کو بملامت یہ سوال کرنے سے نہیں روک سکتا۔ آیا وہ بوجہ اپنی محبت اسلام ایسا کرتا ہے یا کسی دوسری وجہ سے۔ جرمن پریس کے قارئین کو یہاں مسٹر اسٹمفر کاٹرکی اور اسلام پر نالائق اور سخت حملہ یاد دلانا کافی ہے جو اس نے ۱۹۲۱ء میں خلعت معاملہ کے وقت کیا اور ٹلیرین ، قاتل کو حق بجانب ٹھہرایا۔ اس کے اسلام کے خلاف آرمینی مدامی پراپیگنڈہ میں سرگرم حصہ لینے کو چھوڑ دیجئے۔ جن میں عصری قومی پارٹی کے ممبروں کے ساتھ داورٹس کے ایڈیٹر کے مخالفانہ اور بد تہذیبانہ طرز عمل کو پچھلے مارچ میں یاد کرنا چاہئے جن کا قصور دارورٹس کے ایڈیٹر کی نظر میں صرف یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے لوگ تھے جنہوں نے بدقسمت باشندگان روہرگیبٹ (علاقہ روہر) کے ساتھ اپنی ہمدردی اور حمایت کا اظہار کرنے کے ہوٹل اسپلنڈ میں ایک جلسہ منعقد کرنے میں پہل کی تھی۔ یہ ایک ایسا کام تھا جو باوجود مدد اور حمایت جو جرمنی نے ان کے ساتھ کی اس کے (ایڈیٹر) آرمینی دوستوں کو آج تک بھی کرنا نصیب نہ ہوا کچھ بھی ہو ہم تو دارورٹس کے ایڈیٹر کو بوجہ اس کے احمدیہ ایجنٹوں کے معاملہ میں پورے عبور کے مبارکباد دیں گے۔ وہ لکھتا ہے کہ احمدی مسجد ایک جرمن کاریگر کا کام ہے جس کو جرمن لوگ بنائیں گے۔!
مسٹر مبارک علی اپنے ہمراہ ایک گروہ ہندوستانی یا انگریز مزدور وں کا لانا بھول گئے کہ ان کے تعمیر مسجد میں مدد کرتے۔‘‘ دارورٹس کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوگا کہ ایڈیٹر ہندوستانیوں، مصریوں کے اور دیگر ایشیائی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی تحریکوں کے مقابلہ میں انگریزی شہنشاہی پروپیگنڈے کو جرمنی میں ترجیح دے گا۔
۱؎ یہ صفت یعنی ’’مصلح اسلام‘‘ جس کو دارورٹس کا ایڈیٹر غلطی سے فرقہ احمدیہ کے بانی پر چسپاں کرتا ہے اس شخص نے نہیں مانی ہے۔ دیکھو پمفلٹ موسومہ (اقتباسات قرآن کریم ص۱۵۳)
مگر میں ان معنوں میں نبی نہیں ہوں یعنی یہ کہ میں اپنے آپ کو اسلام سے الگ کروں یا کسی اسلامی حکم کو منسوخ کردوں۔ میری گردن اسی جوئے کے نیچے ہے جو اسلام ہم پر رکھتا ہے اور کسی کو کسی اسلامی حکم کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔