ابتری نہ پھیلانے کے حق اور قانون اور اپنی نیک نیتی کا احترام کرنے کے لئے میں قصداً حق گوئی سے روک دیا گیا تھا۔
جرمنی میں تحریک احمدیہ پہلی آزمائش کو بھی برداشت نہ کرسکی اور چونکہ اس نے اپنی کمزوری کو محسوس کرلیا اس نے تمام معاملہ کا عقلمندی سے اس طرح انتظام کرکے پولیس کے پیچھے پناہ لی کہ پولیس وقت مناسب پر مداخلت کرسکے۔ تاکہ ان کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
اس لئے اگر کسی کو بدسلوکی اور فساد کی شکایت کا حق ہے تو وہ میں ہوں نہ کہ اس قطہ زمین کا مالک جو کوئی بھی ہو جس پر مسجد بنائی جائے گی۔
ڈاکٹر منصور ایم رفعت
برلین ۹؍اگست ۱۹۲۳ئ خط بنام ایڈیٹر انچیف دارورٹس۔ برلین
جناب من! میں بہت ممنون ہوں گا کہ اگر آپ اپنے اخبار میں حسب ذیل تصحیح شائع فرمائیں گے۱؎ تو پچھلے دو شنبہ کو قیصر ڈیم پر مسجد قادیانیہ کی رسم بنیادی کے موقع کے حالات دارورٹس نمبر۳۳۶مورخہ ۷ماہ حال میں پڑھنے کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ چند الفاظ تشریح کے لئے تحریر کروں۔
۱؎ دارورٹس کے قابل ایڈیٹر نے باوجود اس درخواست کے صحیح اور درست ہونے کے منظور نہیں کیا۔ اپنے پرچہ میں شائع کرنے سے انکار کردیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مذکورہ بالا اخبار کا چیف ایڈیٹر جبکہ اپنے آپ کو سوشلزم کا پیش اور حمایتی ظاہر کرتے ہیں۔ ابھی تک اسی غلط خیال پر قائم ہیں کہ شاہی برٹش گورنمنٹ کسی صورت سے بھی بنی نوع انسان کے ایک بڑے حصہ کی تنزل اور مصیبت میں ایک بڑا اور اہم حصہ نہیں لے رہی ہے کیونکہ وہ اس کے مخالفوں کو سیاسی مجنوں کہتا ہے۔ میرے لئے یہ بالکل بعید از عقل ہے کہ اس قسم کے سوشل ازم اور انگریزی شہنشاہیت کے درمیان ایک بڑا تعلق معلوم کروں کیونکہ میں ابھی تک دارورٹس کے چیف ایڈیٹر کے اعلان کو جو اس نے مجھ کو دوران جنگ میں ۱۹۱۸ء دیا۔ بھول نہیں سکا کہ ’’انگلستان رفیق سوشلزم ہے۔‘‘ اور نیز اپنے اخبار میں ایک مشہور آرٹیکل بعنوان ’’ہنزے اینٹی انگلیشرکزر‘‘ نکالا…‘‘
اس وقت جو چیز ہماری دلچسپی کا باعث ہے وہ مسٹر اسٹمفر کا جرمنی میں فرقہ احمدیہ کے ایجنٹوں کے ساتھ غیر معمولی نرم طرز عمل ہے۔ کیونکہ یہ کہنا تعجب خیز ہے کہ دارورٹس ایک اکیلا اخبار جس نے ان زیر بحث اصحاب (احمدی)کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ وہ بانی فرقہ کو ’’زمانہ حال کا مصلح اسلام لکھتا ہے۔ اور اس کے متبعین کو راست باز کہتا ہے جو (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)