ضرورت پیش آئے۔ حضور ہم کو شاہی احکام کی تعمیل میں بلاامید کسی انعام کے جان ومال تک قربان کرنے کے لئے مستعد پائیں گے۔ ‘‘
۲… ’’حضور والا! ہمارے ہم وطن ہم کو انہی خیالات کی وجہ سے وطن کا غدار کہتے ہیں اور ہم کو خوشامدی سمجھتے ہیں۔ بعض ہم کو کوتاہ بین اور زمانہ ساز تصور کرتے ہیں۔ لیکن اے عالیجاہ شہزادے ہم لوگوں کی خاطر خدا کو نہیں چھوڑ سکتے……‘‘
۳… ’’از کیمپ شہزادہ ویلز ۔ انڈیا
بخدمت ذوالفقار علی خان۔ ایڈیشنل سیکرٹری قادیان پنجاب۔
نمبر۹۳۷ پی مورخہ یکم مار چ ۱۹۲۲ء
جناب من! مجھ کو ہزرائل ہائینس شہزادہ ویلز سے حکم ہوا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کے ممبروں کے سپاسنامہ کی رسید جو بذریعہ گورنمنٹ پنجاب موصول ہوا ہے۔ شکریہ کے ساتھ ارسال کردوں۔‘‘
۴… اسلام تحریک احمدیہ۔
…مذہب کے لئے مقدس جنگ بذریعہ تلوار (جہاد) کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجانا چاہئے۔
۵… ’’سب احمدیوں پور گورنمنٹ برطانیہ کا وفادار رہنا مذہباً فرض ہے۔ ذاتی اغراض مذہب کے لئے جگہ دینی چاہئے۔ اس گورنمنٹ اور اس کے عدل کا عطا آزادی پر شکریہ ہمارے مخالف ہمارے پروپیگنڈہ کو بزور نہیں دبا سکتے۔ جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کو حکومت برطانیہ کے تحت میں جو کچھ حاصل ہے وہ دوسری کسی گورنمنٹ میں میسر نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے چاہا کہ اسلام کے زوال کے وقت ایک منتخب جماعت قائم فرمائے۔ اس نے اس کو ایک حلیم گورنمنٹ کے ماتحتی میں رکھا۔ حکومت انگریزی ایک برکت ہے اور اگر کسی کو ان الفاظ میں شبہ ہے تو پھر ملازم ہے کہ کسی دوسری گورنمنٹ کے ماتحت رہے۔ کسی اسلامی گورنمنٹ کے تحت میں۔
جماعت کو اس گورنمنٹ کی قدر کرنی چاہئے اور بذریعہ اس کی وفاداری اور اطاعت کے اپنی شکرگزاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ لہٰذا جو ہمارا متبع ہے۔ اس کو یہ ہماری آخریت وصیت سمجھنا چاہئے اور مرتے دم تک اس پر عامل رہنا چاہئے۔‘‘
میں خیال کرتا ہوں کہ اب یہ بالکل صاف ہوگیا ہے کہ باوجود رسم کے پروگرام میں