بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے لفظ منافقین استعمال کیا گیا ہے حقیقتاً احمدیوں کی کھلی پارٹی اس گروہ کو منافقین کی پارٹی کہتے ہیں۔ یہ لوگ بہت ہوشیار ہیں وہ عام طور سے اپنے آپ کو باوجود باضابطہ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے کے معمولی مسلمان ظاہر کرتے ہیں۱؎۔ اکثر احمدی ہونے سے انکار کردیتے ہیں۔ انگریزوں کے اسی قدر وفادار خادم ہوکر بھی جتنے دیگر احمدی ہیں وہ بعض اوقات انگریزوں کے خلاف بول دیتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ ایسے طریقوں سے کام کرتے ہیں گویا کہ وہ انگریزوں کے دوست نہیں ہیں۔
یہ فرقہ کی سب سے زیادہ خطرناک پارٹی یہاں برلین میں زیر صدر الدین ہے جو کمال الدین کے ایجنٹ ہیں۔ صدر الدین نے ساڑھے تین برس تک ووکنگ انگلستان میں اس زمانہ میں کام کیا ہے۔ جبکہ کمال الدین دوران جنگ میں گئے ہوئے تھے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ باوجود طریق کار میں ظاہری مخالفت کے رہنمایان خفیہ طور پر ملے ہوئے ہیں۔ تاکہ اگر ایک پارٹی ناکام ہو تو دوسری کامیاب ہوجائے۔ پس صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل اسلامی تحریک کو پامال کرنے کے لئے ایک بڑی سازش ہورہی ہے۔ یہ بھی قابل نوٹ ہے کہ یہ مختلف قسم کے احمدی خاص کر انہیں مقامات پر پہنچتے ہیں جاں بکثرت مسلمان طلباء بغرض حصول تعلیم وغیرہ جمع ہوتے ہیں۔
۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کو شمال مغرب سرحدی صوبہ کے خان محمد عجب خان ساکن زائدہ نے کہا کہ: ’’بعض وقت ہم کو ایسے آدمیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے کہ جو آپ کے دعوئوں سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔ کیا ہم ایسے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟ ‘‘ مہدی کا جواب ملاحظہ ہو۔ مسیح موعود نے جواب دیا: ’’مجھ کو کسی ایسی جگہ کا علم نہیں، جہاں میری تعلیم اور دعوے نہ پہنچے ہوں گے اور اگر کہیں ایسے لوگ ہو ں تو اپنا عقیدہ ان کے سامنے پیش کرو۔ اگر وہ قبول کرلیں تو وہ تم ہی میں سے ہیں اور تم ان کے ساتھ نماز ادا کرسکتے ہو۔ ورنہ نہیں۔ اس حالت میں اپنی نماز الگ
۱؎ ہند کے جماعت احمدیہ کے صدر نے بمبئی کرانیکل مجریہ۲۴؍نومبر ۱۹۲۲ء میں ایک خط مورخہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۲۲ء شائع کرایا جس میں تحریر ہے:
احمدیوں نے اشاعت اسلام کے کام کو جرمنی تک وسعت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور خدا کے فضل سے احمدیوں کی چھوٹی سی لاہوری پارٹی برلین دومشزیوں کو بھیجنے کے قابل ہوگئی ہے۔
پہلی کے نمائندے کمال الدین ہیں اور دوسری کے صدر الدین ہیں۔ جن کا کام ووکنگ میں ساڑھے تین سال تک بطور امام کے محتاج بیان نہیں ہے۔