لیکن افسوس کہ انہوں نے کچھ عبرت حاصل نہیں کی۔ اس پیش گوئی کے بارے میں ان کے مرید کا نوٹ ملاحظہ ہو: ’’۷اپریل۱۸۹۲ء کو اس لڑکی کا دوسری جگہ نکاح ہوگیا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ۲۸۰، خزائن ج۵ ص۲۸۰)
مرزا قادیانی پر جب اعتراضوں کی بوچھاڑ ہوئی تو انہوں نے اپنی جبلی عادت کے موافق فرما دیا کہ وحی الٰہی میں یہ نہ تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہ جائے گی بلکہ یہ تھا کہ ضرور ہے کہ اول دوسری جگہ بیاہی جائے اور وعدہ یہ ہے کہ پھر وہ نکاح کے تعلق سے واپس آئے گی۔ سو ایسا ہوگا۔ مرزا قادیانی کی اپنی کتاب کی عبارت (الہامات مرزا) میں مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو۔
’’ان میں سے وہ پیش گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے کیوں کہ اس کے اجزاء یہ ہیں۔ ۱…مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کے اندر فوت ہو۔ ۲…اور پھر اس کا داماد اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔ ۳…اور پھر یہ کہ مرزا احمد بیگ کی تا روز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔ ۴…اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی فوت نہ ہو۔ ۵…اور پھر یہ کہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔ ۶…اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہوجائے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
اس عبارت میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں داماد مرزا احمد بیگ تو غالباً اب ۱۹۲۱ء میں بھی موجود ہے۔ اور خدا کرے کہ اس کی عمر میں اور ترقی ہوتا کہ مرزائیوں کا اسے دیکھ کر دل ٹھنڈا ہوتا رہے اور مرزا قادیانی یہ کہتے ہوئے چلے گئے۔
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا
اس پیش گوئی کے شکست ہونے سے مرزا قادیانی کے معتقدین نے مختلف پہلو اختیار کئے بعض تو بوجہ ولیمہ نکاح نہ کھانے کے غصے ہوگئے کہ مرزا قادیانی نے اس الہام میں غلطی کھائی۔ بعض نے کہا نکاح فسخ ہوگیا۔ حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اول نے شیرینی نکاح کے ایصال ثواب کی مرزا قادیانی کی روح کو کوشش کی۔ ان کی توجیح کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ فسخ ہوا نہ غلطی۔ بلکہ مرزا قادیانی کا اگرچہ نکاح نہ ہوا مگر ان کے لڑکے در لڑکے لڑکے در لڑکے منکوحہ کی جانب لڑکی در لڑکی در لڑکی تا قیامت ان میں کبھی نہ کبھی رشتہ ضرور ہوجائے گا۔