یہ پیش گوئی محتاج بیان نہیں حق کی طرف رجوع کرنے کے معنی ایسے کھلے ہوئے ہیں کہ معمولی درجہ کا آدمی بھی عبارت مذکور کے الفاظ دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ عبداللہ آتھم حضرت مسیح علیٰ نبینا علیہ السلام کو خدا مانے ہوئے تھا اور مرزا قادیانی مدعی توحید واسلام تھے پس آتھم کے حق کے طرف رجوع کے معنی سوائے اس کے کہ وہ توحید کا قائل ہوکر اسلام میں داخل ہو اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ پس پیش گوئی کا مطلب صاف ہے کہ عبداللہ آتھم اگر اسلام نہ لائے گا تو پندرہ ماہ کے اندر بسزا موت حاویہ میں گرایا جائے گا۔
نتیجہ پیش گوئی کا کیا ہوا، وہی جو اس قسم کے مدعیوں کو ایسے دعوے کرنے کے بعد برآمد ہوتا ہے۔ یعنی عبداللہ آتھم اس میعاد مقرر کے بعد بھی اسی کفر پر قریباً دو سال کے زندہ رہا۔ افسوس کہ مرزا قادیانی نے خود کہا کہ: ’’ہمارے صدق وکذب کی جانچ ہماری پیش گوئی ہے۔‘‘ مگر خوش اعتقاد لوگ ان کے کہنے پر بھی عمل نہیں کرتے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸)
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹا وعدہ کرتا
تمہیں منصفی سے کہدو تمہیں اعتبار ہوتا
ناظرین کو خیال ہوگا کہ ایسی صریح پیش گوئی غلط ہونے سے مرززا قادیانی اور ان کے اتباع کو بڑی ندامت اور پشیمانی ہوگی جو کہ اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ سو برادران! اگر یہ خیال ہوتا تو اس قسم کے دعوے کیوں ہوتے؟ جب اللہ سے ندامت نہ ہو جو تمام مکروفریب سے بخوبی واقف ہے اور اس پر افتراء کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہے تو مخلوق کی کیا پرواہ۔
خصوصاً جب اس مخلوق میں بعض ایسے بھی ہوں کہ جن کے سامنے دن کو رات کہا جائے تو وہ ماننے کو تیار ہیں۔ رہا جواب اور تاویل، سو ایسی تو کوئی بات ہی نہیں ہوسکتی جس کا جواب مرزا قادیانی کے پاس نہ ہو۔ ہاں غلط صحیح کی پرواہ نہیں۔ لیجئے مرزا قادانی اور ان کی ذریت کا جواب سنئے کہ آتھم کے نہ مرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے حق کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ یعنی موت کے خوف سے شہر بشہر اور ہراساں مارا مارا پھرتا رہا اور ایک لفظ اس نے اسلام کے خلاف منہ سے نہیں نکالا۔ اس صحت اور عدم صحت کو خود ناظرین ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ذرا تکلیف فرما کر پھر دوبارہ پیش گوئی کے الفاظ جانچ لیجئے۔ ہم تو کبھی مرزا قادیانی اور ان کے دعوے اور جواب کو دیکھتے ہیں اور کبھی ان کے مریدوں اور ان کے عقائد کو۔
افسوس کہ دروغ را حافظہ نہ باشد