ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
جاری ہوگئی ۔ گو تھپڑ کےمارنے کے بعد مولانا قلندر صاحب نے اس لڑکے سے معافی بھی مانگ لی تھی اور اس نے معاف بھی کردیا تھا لیکن پھر بھی اس حرکت کا یہ وبال ہوا بعد کو تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ لڑکا سید تھا ۔ اس قسم کی بہت حکایتیں بدوؤں کی ہیں تو کوئی کیا حقیر سمجھے کسی کو ۔ میرا مطلب ان سب حکایتوں سے یہ ہے کہ کسی میں کوئی خاص بات ایسی ہوتی ہے کہ وہ سرکار کے دربار میں پسند ہوتی ہے چنانچہ ہمارے بزرگوں میں ایسی ایک چیز للہیت تھی اور اپنے بزرگوں کو اس صفت پر نظر کرنے کی اللہ تعالٰی نے مجھے بھی تو فیق دی بس یہ ہے چیز اور سب چیزوں کی کمی تو معاف بھی ہوسکتی ہے لیکن للہیت کی کمی معاف نہیں ہوتی ۔ اس سے درگذر نہیں کیا جاتا یعنی کمال میں اس کا شرط ہونا نظر انداز نہیں ہوتا ۔ اگر کسی میں یہ چیز کم ہے تو یوں کہئے کہ اس میں بہت کمی ہے ۔ وہاں تو نہ تقریر کو کوئی پوچھتا ہے نہ تحریر کو کوئی پوچھتا ہے نہ اور ادا کو کوئی پوچھتا ہے ۔ بس اصل چیز یہ ہے اسی کا جب غلبہ ہوتا ہے تو اس کا نام فنا ہے ۔ صوفیوں نے تو اس کا نام فناء رکھا اور اہل ظاہر ک اصطلاح میں اس کو للہیت اور اخلاص کہتے ہیں ۔ اب صحابہ رضٰی اللہ عنمہم میں کیا چیز زیادہ تھی یہی للہیت اور خلوص ورنہ کیا وہ سارے حضرات اصطلاح عالم تھے یا ان حضرات سے عمل میں کوئی کوتاہی کبھی ہوتی ہی نہ تھی مگر اسی للہیت اور اخلاص کی وجہ سے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر نصف مد میرا صحابی اللہ کی راہ میں دے تو وہ غٰیر صحابی رضی اللہ عنہم سب کے سب نہایت مخلص اور حضور کے جان نثار تھے ۔ پہلی امم میں کسی امت کو یہ باتیں نصیب نہیں ہوئی اور لوگ تو بکثرت اپنے انبیاء سے امتی ہوکر بھی قیل و قال کرتے رہے اور یہاں اللہ اکبر حضور کی محبت میں اپنی جان تک کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ نوٹ از جامع ۔ اس ملفوظ کے ختم پر حضرت اقدس نے احقر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ چیزیں ہیں لکھنے کی ۔