ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
ہوتی ہے کہ اس سے ہماری آمدنی میں برکت ہوگی اس صورت میں میں ہدیہ نہیں لیتا کیونکہ اگر برکت مز عومہ نہ ہوئی تو وہ دیکر بھی پچھتائیں گے تو میں کیوں ان کے پچھتانے کا سبب بنوں مجھے اس سے بڑی غیرت آتی ہے غرض میں نے تو ان کی اور اپنی دونوں کی مصلحت سے نیت کے متعلق سوال کیا تھا تاکہ معاملہ صاف ہوجائے اور بعد کو جانبین میں سے کسی کو بے لطفی نہ ہو لیکن باوجود انگریزی دان ہونے کے انہوں نے اس معقول سوال کا بھی یہ نامعقول جواب لکھ کر بھیجا ہے کہ آپ جو نیت بتلائیں وہی نیت میں کرلوں میں نے اس کا یہ جواب لکھ کر بھیجا ہے کہ میری غیرت اس کو گوارا کرسکتی ہے کہ آپ سے ہدیہ وصول کرنے کی غرض سے میں آپ کو ایسی نیت بتلادوں جس سے مجھ کو روپیہ مل جائے ۔ پہلے آدمیت سیکھو ہدیہ دینا فرض نہیں آدمیت سکیھنا فرض ہے اھ ۔ پھر فرمایا کہ ہدایا کے متعلق قیل وقال کرنے سے جی بھی ڈرتا ہے کیونکہ یہ تکبر کی صورت ہے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس پر مواخذاہ نہ ہو کیونکہ گو استثناء اچھی چیز ہے لیکن چونکہ استغناء اور تکبر صورۃ یکساں ہوتے ہیں اس لئے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں استغناء میں کوئی خفی کید نفس کا نہ ہو اور مواخذہ ہونے لگے چنانچہ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار ایک غریب شخص نے ایک دھیلا ہدیہ پیش کیا شاہ صاحب نے یہ سوچ کر کہ یہ خود بہت حاجت مند معلوم ہوتا ہے جب ہی تو صرف دھیلا رہا ہے لینے سے عذر فرما دیا اور فرمایا کہ بھائی تم بہت غریب ہو تم خود ہی اس دھیلے کو اپنے خرچ میں لے آنا۔ وہ مایوس ہوکر چلا آیا ۔ اس کے بعد شاہ صاحب کی فتوحات بالکل بند ہوگئیں دو تین روز تک تو یہ خیال رہا کہ توکل میں کبھی کبھی امتحان بھی ہوتا ہے لیکن جب مسلسل تنگی ہونے لگی تو شاہ صاحب کو تردد پیدا ہوا کہ یہ فتوحات کا بند ہوجانا امتحانا نہیں بلکہ کسی جرم کی پاداش میں معلوم ہوتا ہے اہل ذوق اس فرق کا ایک علامت سے ادراک بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ جو ابتلاء بطور امتحان کے ہوتا ہے اس میں ایک قسم کا نور محسوس ہوتا ہے اور جو بطور مواخذہ کے ہوتا ہے اس