ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کیا جواب ہے ۔ جواب یہی ہے کہ نماز جب اتنی سہل ہے اور پھر بھی اس میں کوتاہی کی گئی تو یہ دلیل ہے نہایت غفلت کی لہزا اس کے ترک پر سزا بھی سخت ہونا حقیقت میں اس کی تسہیل کی تقویت ہے نہ کہ سختی ۔ لکھو میں نماز کی سہولت کی تقریر پر ایک مولوی صاحب نے جو حاضر مجلس تھے یہ اعتراض کیا کہ کلام مجید میں نماز کی بابت یہ الفاظ ہیں کہ انھا لکبیرۃ فورا یہ جواب دیا گیا کہ اس کے آگے الا علی الخاشعین بھی تو پڑھ لیا ہوتا ۔ غرض نماز کو جب شروع کرو گے تو بلکل آسان نظر آئے گی اور یوں اگر کوئی قصد نہ کرے تو کھانا بھی مشکل ہے جیسے واجد علی شاہ کے احدیوں کی حکایت مشہور ہے کہ سینہ پر بیر پڑا رہا اس کو بھی اٹھا کر نہ کھا سکے دوسرے سے اٹھوانے کی فرمائش کی تو ایسوں کا تو ذکر ہی نہیں پھر معترض صاحب سے فرمایا گیا کہ اگر کوئی خشوع کو شکل بتلا دے تو اس کے متعلق الا علی الخاشعین کے بعد یہ بھی ہے الذین یظنون انھم ملا قوا ربھم وانھم الیہ راجعون یعنی یہ اعتقاد رکھے کہ مجھے خدا کے کے پاس جانا ہے اور اس کے ردبر ہونا ہے اس سے خشوع بھی آسان ہوجائے گا ۔ سبحان اللہ اس آیت میں تو پورا سلوک موجود ہے مگر سب میں قصد شرط ہے ۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے ایک ایسے ہی سوال کا جواب ارشاد فرمایا تھا حدیث کا درس ہو رہا تھا جب یہ حدیث آئی من صلی رکعتین لا یحدث فیھما نفسہ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ یعنی اگر کوئی شخص دو رکعتین ایسی پڑھے جن میں حدیث النفس نہ ہو یعنی کوئی خیال نہ لاوے تو اس کے گذشتہ سب گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ اس پر ایک طالب علم نے یہ سوال کیا کہ ایسی نماز ممکن ہے ۔ اس کا ضابطہ کا جواب تو اور ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خطرات کا آنا یہاں مراد نہیں بلکہ لانا مراد ہے ارادہ اختیاری فعل ہے لیکن مولانا نے ایک