ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
سے شروع ہونا چاہئے چنانچہ معنے سمجھنے والوں پر مخفی نہیں ۔ تو دیکھئے یہی بے جوڑ رکوع ہے مگر خیر امت کے خلف نے بزرگوں کے تعامل کی بھی بہت حفاظت کی ہے ورنہ پھر نئ نئی باتیں نکالنے کی جرات ہوتی ۔ اب بھی لاہور میں ایک شخص نے گو دیوبند کے رہنے والے ہیں ایک یہ بدعت ایجاد کی کہ قرآن مجید کی ترتیب ہی کو بدل دیا ہے اور اس کو مضامین کے اعتبار سے مرتب کیا ہے میں نے ان کو خط بھی لکھا تھا اور متنبہ کیا تھا مگر کچھ جواب نہیں دیا سو اس جرات کا سد باب کرنے کے لئے بزرگوں نے تعامل امت کا بھی اتباع کیا ہے ۔ اس کا یہی مقصود تھا کہ بس جو ہوگیا ہوگیا اب کوئی نئ بات نہ نکالیں اور حضرت اگر ظاہر ربط نہ ہونا موجب قدح ہوتا تو سب سے زیادہ دشمن اول اول عرب کے قریش تھے وہ ضرور نقص نکالتے مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی اور خود عرب کے شاعروں میں بھی صرف ضرورت پر نظر ہے ربط کا خواہ مخواہ کا خبط نہیں چنانچہ سبعہ معلقہ ہی میں یہ شعر ہے ھل غادر الشعراء من متردم امر ھل عرفت الدار بعد توھم دیکھئے ان دو مصرعوں میں باہم کوئی ربط نہیں ۔ اول مصرع میں کچھ مضمون ہے ۔ دوسرے میں کچھ وہاں شعراء کا حال بیان کر رہے تھے یہاں گھر کا حال بیان کرنے لگے ۔ متنبی نے البتہ ان تکلفات کا زیادہ اہتمام کیا ہے اور اسی کو اہل عرب اچھا نہیں کہتے ۔ کہتے ہیں کہ اس کے کلام میں عجمیت ہے عربیت نہیں عربیت میں تو سادگی ہوتی ہے تکلف نہیں ہوتا ۔ اس پر یاد آیا کہ قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی اپنے صاحبزادہ قاری عبدالعلیم صاحب کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس کو عجمیت سے تو نکال دیا ہے لیکن یہ عربیت میں ابھی نہیں آیا ۔ وہ خود بھی ایسا سادہ پڑھتے تھے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ قاری ہیں حالانکہ قاری صاحب قراءت میں کامل تھے انہوں نے اس کمال کو اکتساب سے اس طرح حاصل کیا تھا کہ جب حج کو گئے تو راستہ میں کسی چٹان پر