ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
نے ربط آیات اپنی تصنیف سبق الغایات فی ربط الایات میں دکھلایا ہے جس کو بہت لوگوں نے پسند کیا ہے مگر وہ سب ظنی تخمینی ہے جس پر کوئی دلیل قوی نہیں اعتقاد میں یہی سمجھتا ہوں کہ باہم آیات میں کسی ربط کی ضرورت ہی نہیں ۔ اب جو کلام مجید میں ایک آیت کا دوسری آیت سے ربط ظاہر نہیں اس میں یہ خوبی پیدا ہوگئی کہ ہر آیت میں ایک مستقل مضمون ہے ۔ اگر باہم ربط ہوتا تو اس میں یہ خوبی نہ ہوتی ۔ وہاں یہ خیال ہوتا کہ ایک مضمون تو مقصود اور مستقل ہے دوسرا اس کا تابع ۔ اب سب مضمون مستقل ہی ہیں ۔ کسی مضمون کی اہمیت دوسرے مضمون سے کم نہیں ۔ دیکھئے باپ جو اپنے لڑکے کو نصیحت کرنے بیٹھتا ہے تو کیا ان نصیحتوں میں باہم کوئی ربط بھی ہوتا ہے ۔ بس چند نصیحتیں جو ضروری ہوتی ہیں کردی جاتی ہیں کہ بیٹا یہ کرنا یہ نہ کرنا باہم نصیحتوں میں کوئی ربط تھوڑا ہی ہوتا ہے سب مفید باتیں حسب مصلحت بتادی جاتی ہیں اور جو ربط کا اہتمام ہو تو سمجھو کہ شفقت زیادہ نہیں صرف حسن کلام کی رعایت ہے زیادہ نظر بس کلام کے حسن پر ہے فائدہ نہیں ۔ اس واسطے یہ تو خوبی قرآن کی ہے کہ اس میں ربط ظاہر نہیں ۔ البتہ باہم تناسب کی نفی نہیں کی جاتی مگر وہ بھی کسی دلیل سے متعین نہٰیں اجمالا ایک دلیل سے ثابت ہے اور وہ دلیل تلاوت کی ترتیب کا نزول کی ترتیب سے مختلف ہوتا ہے توقیفا آیتوں کے مواقع بتلائے جاتے تھے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع سے خاص مناسبت ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔ استفسار پر فرمایا کہ یہ جو رجوع قرآن شریف میں جگہ جگہ لکھ دئے گئے ہیں یہ بزرگوں کا صرف عمل ہے کہ جہاں انہوں نے رکوع کر دیا متبعین نے وہیں رکوع بنادیا ۔ یہ رکوع کسی نص سے ثابت نہیں بلکہ بعض تو بالکل بے محل ہیں مثلا ایک رکوع اس سے شروع ہوتا ہے ۔ ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین حالانکہ مضمون کے اعتبار سے واصحاب الشمال مااصحاب الشمال