ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
گی اور قرب حاصل ہوجائے گا اس حالت میں ہدیہ قبول کرلینا دین فروشی ہے ۔ مجھے مولانا خلیل احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا وہ قول بہت پسند آیا جو انہوں نے ایک ریاست کے کار کنوں سے اس وقت کہا تھا جب ان کو اور مجھ کو نزرانہ کے نام سے انہوں نے رقم دینی فروش نہیں ۔ جب میری باری آئی تو میں نے اس سے بھی بڑھ کر سخت بات کہی کہ بیت المال سے آپ کو رقم دینا جائز ہی کہاں ہے ۔ میں نے تو ہمیشہ ہی کے لئے میں یہ بھی فرمایا کہ بزرگوں کے نزرانوں کے متعلق یہ جو مشہور ہے کہ خالی جاوے خالی آوے اس کے صحیح معنی یہ ہیں کہ جو خالی جاوے گا خلوص سے وہ خالی آوے گا فیوض سے لیکن آجکل خلوص کی جگہ فلوس بنا رکھا ہے کہ اگر خالی جاوے گا فلوس سے تو خالی آوے گا فیوض سے سو یہ اچھی خاصی تجارت ہوئی ۔ رد ہدیہ کے سلسلہ میں فرمایا کہ لوگ اس کے متعلق بھی مجھے بدنام کرتے ہیں کہ سخت ہے مگر ہم اپنے اصول کو کس کس کے لئے چھوڑیں پھر ایک اور معصیبت یہ ہے کہ اگر ایسا کریں بھی تو پھر وہی لوگ بدنام کریں کہ یہ بڑے لالچی ہیں چنانچہ یہاں ایک رنگونی بڑے تاجر آئے ان کے ساتھ فلاں سورتی بھی تھے وہ مجھ سے خود کہتے تھے کہ فلاں جگہ گئے وہاں تو فلاں شخص بڑا بدمعاش ہے ۔ میں نے پوچھا کیا بدمعاشی کی کہنے لگے وہ ہم لوگوں کے پیچھے پیچھے پھرتا تھا کہ چاہے پی لیجئے گنا کھا لیجئے خوشامدیں کرتا پھرتا تھا ۔ بڑا بدمعاش ہے ۔ لیجئے خاطر کرو لالچی بنو اور بدمعاش کھلاؤ اس سے تو وہ بدنامی تشدد اور تکبر ہی کی اچھی ۔ پھر تاجر یہاں آئے تو میں نے اپنے انہیں اصولوں کے مطابق ان سے برتاؤ کیا جو گنوار پن سمجھا جاتا ہے ۔ انہوں نے کچھ کپڑے اور کچھ نقد پیش کرنا چاہا تو میں نے لینے سے انکار کردیا اور صاف کہہ دیا کہ جب تک کسی سے بے تکلفی کا تعلق پیدا نہیں ہوجاتا میں ہدیہ نہیں لیتا اس پر انہوں نے ان سورتی صاحب سے میری شکایت کی کہ میں تو بڑی تمنا سے یہ چیزیں پیش کرنے