ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کم ازکم جو خرچ جلد بند ھوانے میں حضرت کا ہوا ہو وہ تو لے لیا جائے اس کا بار حضرت پر خواہ مخواہ کیوں پڑے ۔ فرمایا جی نہیں اس کی کیا ضرورت ہے ۔ پھر مزاحا فرمایا کہ آپ مجھے ایسا ہارا یوا سمجھیں ۔ میرا جو کچھ اس میں تھوڑا سا خرچ ہوا ہے وہ تو اسی خیال سے وصول ہوگیا کہ ایک بے کار چیز کام میں آگئی ورنہ فضول ضائع جاتی یہ خوشی کیا اس کی قیمت سے کم ہے پھر فرمایا کہ میں نے ایک روایت حضرت مولانا گنگوہی رحہ کے ایک خادم غیر عالم سے سنی ہے واللہ اعلم ثابت ہے یا نہیں اس لئے احتیاط یہ ہے کہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیھ وسلم کی طرف منسوب کرنے کے کسی بزرگ کی طرف منسوب کیا جاوے بہر حال وہ روایت یہ ہے کہ ایک بار ایک سائل حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یا کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا چونکہ اتفاق سے اس وقت آپ کے پاس کچھ نہ تھا آپ نے اس کو حضرت غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یا کسی سخی بزرگ کا پتہ بتادیا کہ ان کے پاس جاء وہ ان کی خدمت میں پہنچا جب اپنی عرض پیش کرنے کا قصد کیا تو اتفاق سے آپ اس وقت اپنی بیوی پر خفا ہو رہے تھے کہ تم نے چراغ میں بتی کیوں جلائی جس سے تیل زیادہ خرچ ہوا ۔ یہ سن کر سائل نے دل میں کہا کہ جب ان کا بتی پر یہ حال ہے تو ان سے اس سے بتی ( یعنی اس سے بڑھتی بمعنی زیادہ ) کی تو کیا امید ہے پھر بھی چانکہ حضور کا یا کسی بزرگ کا بھیجا ہوا آیا تھا اپنی حاجت عرض کی گو امید تو بالکل نہ رہی تھی ۔ ان بزرگ کا بہت سا سامان تجارت شام سے آنے والا تھا ۔ سو دو سو اونٹ مال کے لدے ہوئے تھے گو ابھی مال تو راستہ ہی میں تھا لیکن سفیر نے پہلے سے آکر اطلاع دیدی تھی کہ کل یا پر سوں مال آجاوے گا اور اس کا ہجک حوالہ کر دیا تھا آپ نے وہ ہجک اس سائل کو دیدیا اور کہا کہ جتنا مال آنے والا ہے وہ سب تم اس بیجک کے ذریعہ سے وصول کرلینا اور بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لے آنا سائل کو حیرت ہوگئی کہ یا تو چراغ کی بتی کا ذراسا موٹا ہونا بھی گوارا نہ تھا یا اتنا سارا مال دیدینے میں بھی ذرا تامل نہ ہوا ۔ چونکہ حیرت بہت زیادہ تھی اس لئے