ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
چیزیں جتنی بھی ہیں وہ سب اس کی آسائش اور راحت کے لئے پیدا کی گئی ہیں چنانچہ ارشاد ہے خلق لکم مافی الارض جمیعا اور اسی کو بعض مقامات پر سخرلکم مافی السموات ومافی الارض سے تعبیر فرمایا ہے نہ بایں معنی کہ انسان کے سب فرماں بردار ہیں بلکہ بایں معنے کہ سب اس کے کام لگے ہوئے ہیں کما قال السعدی ابرد بادومہ خورشید و فلک در کاراند تاتو نانے بکف آرمی و بلغفلت نخوری ہمہ از بہر تو سر گشتہ وفر مانبردار (یعنی فرمانبردار حق برائے نفع تو ) شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نبری یہی تسخیر مذکور بسکل سجود مکشوف ہوتی ہے اس لئے کہ عالم مثال میں معانی بسکل صورت نظر آتے ہیں پس اس سجدہ سے اشتباہ ہوجاتا ہے اسی اشتباہ کے متعلق حضرت یحیٰ منیری رحمتہ اللہ تعالٰی نے اس کی ایک پہچان بھی لکھی ہے کہ یہ تجلی حق تعالٰی کی ہے یا روح کی کہ اس وقت سالک اس میں غور کرے کہ اس تجلی کے وقت اس کو اپنی ہستی فانی معلوم ہوتی ہے تب وہ تجلی حق ہے یا اپنے علو اور رفعت پر نظر پڑتی ہے تو وہ ظہور روح ہے سب کو اپنے سامنے ساجد دیکھ کر علو و دعوٰی کا غلبہ ہوتا ہے مگر میں اس سے بھی آگے ایک بات اجتہاد سے کہتا ہوں کیونکہ اس فن تصوف میں ابھی اجتہادی کا دروازہ بند نہیں ہوا وہ بات یہ ہے کہ یہ پہچان بھی قابل اعتبار نہیں اس لئے کہ شیطان اس کے نفس میں اس فناء کا تصرف بھی کرسکتا ہے تو ممکن ہے کہ اس فنا کا سبب تصرف شیطانی ہو اس لئے یہ پہچان بھی قابل اعتبار نہیں بس آخری بات ایسے تمام امور میں وہی ہے جو ہمارے حضرت حاجی صاحب کی تعلیم ہے کہ ان امور کی طرف التفات ہی نہ کرے کیونکہ یہ امور مقاصد میں سے تھوڑا ہی ہیں پھر غیر مقصود کی طرف توجہ کرکے خواہ مخواہ خطرہ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے پھر خطرہ سے بچنے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کے اول چھریاں بھونکی جاویں پھر زخموں پر مرحم لگایا جاوے سو چھریاں بھونکنے ہی کی کیا ضرورت ہے اس لئے