ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ایک جیم لکھا اور اس جیم کے پیٹ میں ایک نقطہ لگایا تو جیسے یہ جیم اس خوشنویس کا لکھا ہوا ہے اسی طرح یہ نقطہ بھی اسی کا لگایا ہوا ہے تو اس خوشنویس کی طرف یہ دونوں چیزیں منسوب ہیں تو اس نسبت میں تو دونوں مشترک ہیں مگر پھر یہ فرق ہے کہ جیم متبوع ہے اور نقطہ تابع ۔ اسی طرح حضور کو اور اپنے آپ کو ایک درجہ میں دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور میں اور اس شخص میں کچھ فرق نہیں مگر ایک عامی شخص یہاں ضرور غلط فمہی میں مبتلائے ہوجائے گا اور یہ ذکر تو چھوٹوں کا تھا باقی کشف کے سمجھنے میں تو بعض بڑے بڑے لوگوں سے غلطی ہو گئی ہے چنانچہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ایک مدت تک روح کے نور کو حق تعالیٰٰ کی تجلی سمجھ کر اس نور کی پرستش کرتا رہا گو اس میں ان گناہ نہ ہوا ہو جس کی وجہ میں نے التشرف حصہ اول کے اول کتاب ذکر الموت میں تحت حدیث صہیب اچھی طرح ظاہر بھی کردی ہے جس کو مزید سہولت ناظرین کے لئے کتاب احکام التجلی کی فصل سوم میں بھی نقل کر دیا اس عبارت سے واعلم ان الحدیث تستنبط منہ مسئلۃ الی قولہ کاف فی جواز احتمال کونہ عذرا واللہ اعلم مگر آخر ہے تو غلطی ہی اور اس غلطی کی دو وجہیں ہوئیں ایک وجہ یہ کہ روح کے تجرد و مادیت کے متعلق گو اختلاف ہے مگر اکثر محقیقین کا قول یہی ہے کہ وہ مجرد ہے اس لئے اس کے نور کو سالک بوجہ اس کے غایت درجہ لطیف ہونے کے نور حق سمجھنے لگتا ہے اور روح کے تجرد کا جو بعض متکلمین نے انکار کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تجرد کو اخص صفات باری تعالٰی سے کہا ہے حالانکہ خود یہی بے دلیل ہے بلکہ اخص صفات باری تعالٰی سے وجوب بالذات اور قدم ہے دوسری کوئی چیز نہ واجب بالذات ہے نہ قدیم نہ رمانا نہ ذاتا اور دوسری وجہ یہ کہ کبھی روح کا نور اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ سارا عالم اس نور کے سامنے سر بسجود ہے اور یہ شان حق تعالٰی ہی کی ہے لہذا اس ظہور کو تجلی حق سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ یہ سجدہ ایک حقیقت کی صورۃ مثالیہ ہے جس کا راز یہ ہے کہ اس عالم کے پیدا کرنے سے اصل مقصود انسان کا پیدا کرنا ہے باقی اور