ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
اندر خیر سمجھے اھ ۔ اس پر حضرت حکیم الامتہ دام ظلہم العالی نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت میرے نزدیک بھی ذوقا یہی اقرب معلوم ہوتا ہے جو طبقات شافعیہ سے نقل کیا گیا ہے نیز اصول شرعیہ میں سے ایک اصل سے اس تائید بھی ہوتی ہے وہ یہ کہ قاعدہ کلیہ ہے کہ الہام شرعیہ نہیں تو اگر استخارہ کا حاصل یہ سمجھا جاوے جو مشہور ہے کہ اس کے ذریعہ سے قلب میں ایسی بات کا منجانب اللہ القاء ہوتا ہے کہ جس کے اندر خیر ہوتی ہے لہذا اس القاء پرہی عمل کرنا چاہئے تو چونکہ وہ القاء الہام ہے اس اور اسی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تو گویا الہام پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا لہذا اگر استخارہ کے اس حاصل کو صحیح مانا جاوے تو الہام کا حجت شرعیہ ہونا لازم آتا ہے اور لازم صحیح نہیں لہذا ملزوم بھی صحیح نہیں ۔ نیز استخارہ کا حاصل اگر طبقات شافعیہ کے موافق مانا جاوے تو اس سے ایک شبہ کا جواب بھی بخوبی ہو جاتا ہے اس شبہ کی اور اس کے دفع کی تقریر یہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اذا دعا احدکم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت ارحمنی ان شئت ارزقنی ان شئت ولیغرم المسئلۃ انہ مایشاء لا مکرہ لہ رواہ البخاری اور دوسری حدیث ہے اذا دعا احدکم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت ولکن لیغرم المسئلۃ ولیغرم الرغبۃ فان اللہ تعالٰی لایتعاظمہ شئ اعطاہ ۔ رواہ مسلم یعنی اس طرح دعا نہ مانگے کہ اے اللہ اگر آپ چاہیں تو میری مغفرت فرما دیجئے مجھ پر رحمت فرما دیجئے مجھ کو رزق دیدیجئے اس سے معلوم ہوا کہ تشقیق کے ساتھ دعا نہ مانگنی چاہئے اس پر یہ شبہ ہوتا تھا کہ استخارہ کے اندر جو دعا تعلیم فرمائی گئی ہے اس کے اندر تو تشقیق موجود ہے اور اس شبہ کے جوابات بھی ذہن میں تھے مگر انصاف یہ ہے کہ وہ جوابات گو صحیح اورمعقول تھےمگر شافی نہ تھے اور اب جبکہ استخارہ کا حاصل صرف طلب خیر مانا جائے تو پھر پوری تشفی ہوجاتی ہے کیونکہ اب استخارہ کی دعا کی یہ جو تشقیق ہوگی وہ محض لفظی ہوگی واقع میں تشقیق نہ ہوگی بلکہ واقع میں صرف