ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
اپنے استاد کے اشعار سنا کرتا تھا جب استاد اپنے شعر سناتا تو وہ کسی شعر کو کہہ دیتا کہ یہ ہزار روپیہ کا ہے اور کسی کو کہہ دیتا کہ یہ پانچ سو کا ہے وہ لڑکا اپنی بیاض میں ان شعروں کو لکھ لیتا اور ہر ایک شعر کی قیمت بھی لکھ دیتا کہ یہ شعر مثلا پانچ سو کا ہے یہ ہزار کا ہے ۔ وہ ایک غریب عورت کا لڑکا تھا اس کی ماں نے ایک دن شکایت کی کہ تو کچھ کماتا نہیں خواہ مخواہ اپنا وقت شعروں کے شوق میں گنوا رہا ہے اس نے کہا کہ واہ کون کہتا ہے کہ میں کچھ کماتا نہیں پھر اپنی بیاض لا کر دکھائی کہ دیکھو فلاں شعر میرے پاس اتنے روپیہ کا ہے فلاں شعر اتنے کا ہزاروں لاکھوں روپیوں کی میزبان جوڑ کر بتادی کہ دیکھو میرے پاس ہزاروں روپیوں کے شعر موجود ہیں اس کی ماں نے کہا کہ اچھا جا بازار سے ان شعروں میں سے کسی شعر کو بیچ کر وہ آنہ کی ترکاری ہی لے آ ۔ اس پر آپ کنجڑوں کے پاس پہنچے اور کہا کہ دو آنہ کی ترکاری دیدے اس نے دیدی پھر آپ نے اپنی بیاض نکال کر کہا کہ اس کے بدلے یہ شعر جو پانچ سو روپیہ کا ہے لے لے اس نے کہا کہ پاگل ہوا ہے دیوانہ ہوا ہے کہیں شعروں کے بدلے بھی ترکاری ملا کرتی ہے اس پر اس کو اپنے استاد پر بڑا غصہ آیا کہ بڑا جھوٹا ہے کہتا تھا کہ پانچ سو روپیہ کا شعر ہے یہ تو دو آنہ کا بھی نہ نکلا آپ فورا غصہ میں بھرے ہوئے استاد کے پاس پہنچے اور سب حال کہہ کر کہا کہ بس جی میرا سلام ہے اب میں آپ کے پاس کبھی نہ آؤں گا استاد نے کہا کہ ارے کنجڑوں کیا جانے شعر کی قیمت کسی جوہری کے پاس جوہر لیجاؤ تو وہ اس کی قدر و قیمت جان سکتا ہے مشہور ہے کہ کسی کمہار کو کہیں سے کوئی بڑا قیمتی گوہر ہاتھ آگیا تھا اس نے وہ گدھے کے بچہ کے گلے میں ڈالدیا تھا پھر اس کے استاد نے ایک قصیدہ لکھ کر اس کو دیا اور کہا کہ اچھا یہ قصیدہ ایک ہزار روپیہ کا ہے لیکن اس کو بادشاہ کے یہاں لیجا کر پیش کرو وہ اس کا قدر دان ہے چنانچہ اس نے وہ قصیدہ بادشاہ کے سامنے جاکر پیش کیا تو وہ اس کو سن کر بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ اس کو فورا ایک ہزار روپیہ نقد انعام دیا جائے چنانچہ وہ انعام لے کر خوشی خوش اپنی ماں کے پاس پہنچا اور سب بیان کیا تو