ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
تقاتہ اور دوسری جگہ ارشاد ہے فاتقو اللہ مااستطعتم عموما مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ دوسری آیت پہلے کی ناسخ ہے لیکن قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مظہری میں ان آیتوں کی عجیب تفسیر لکھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ دوسری آیت میں پہلی آیت کے حکم کی توضیح ہے نہ کہ نسخ چونکہ اس میں امر کا صیغہ اختیار فرمایا گیا اور امر گو اپنی حقیقت میں عموما فور کی مقتضی نہیں ہوتا لیکن محاورات میں متبادر فور ہی ہوتا ہے اس لئے صحابہ غایت خشیت سے یہی سمجھے کہ حق تعالٰی اختیار کرنے کا جو حکم ہے وہ فوری ہے اور فوری طور پر حق تقوٰی اختیار کرلینا استطاعت سے باہر تھا لہذا اس آیت کو سن کر گھبرا گئے کہ فورا اس درجہ کا تقوٰی کیونکر اختیار کرسکیں گے اس پر دوسری آیت نازل ہوئی جس میں یہ تفسیر کردی گئی کہ کامل تقویٰ اختیار کرنے کا فوری حکم نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ حسب استطاعت کوشش کرو اور رفتہ رفتہ کامل تقویٰ اختیار کرلو ۔ رہا روایات میں اس کو نسخ کہنا سو نسخ متقدمین کی اصلاح میں عام ہے رفع حکم و توضیح حکم کو یعنی صرف رفع حکم ہی کو نسخ نہیں کہتے بلکہ توضیح حکم کو بھی نسخ ہی سے تعبیر کرتے ہیں اھ ۔ ایسی تفسیر میں نے کہیں نہیں دیکھی اس لئے جی چاہتا ہے کہ تفسیر مظہری چھپ جائے کئی بار تھوڑی تھوڑی چھپ کر رہ گئی قاضی صاحب کے خاندان والوں کے پاس قلمی نسخہ موجود ہے قاضی صاحب نے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کی تفسیر بھی ایسی ہی بینظیر لکھی ہے جس سے بہت سے اشکالات رفع ہوگئے دیکھئے علمی لطائف کیسے پر لطف ہوتے ہیں اہل علم سے ان کی قدر پوچھئے اسی لئے انہیں اور کسی چیز میں اتنا لطف نہیں آتا ان کی شان میں یہ شعر بالکل سچا ہے تابدانی ہر کر ایز داں بخواند از ہمہ کار جہاں بے کار ماند مگر ہرشی کی قدر اس کے اہل ہی جانتے ہیں اس پر ایک شاعر کی حکایت بیان فرمائی کہ اس کا ایک شاگرد تھا جو اکثر اس کے پاس آیا جایا کرتا تھا اور