ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
بات یہ تھی کہ وہ اپنے مخالفین کو بھی برا بھلا نہیں کہتے تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت علیحدہ بنانا نہیں چاہتے تھے اور مثلا مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں یہ عجیب بات دیکھی کہ اگر کسی مسئلہ میں کسی معاصر سے اختلاف ہوا تو اس مسئلہ کا جواب دینے کے بعد یہ بھی فرمادیتے کہ مثلا مولانا گنگوہی کی اس مسئلہ میں یہ تحقیق ہے تمہیں اختیار ہے جس شق پر چاہو عمل کرو خواہ میری تحقیق پر خواہ مولانا کی تحقیق پر تہمیں دونوں پر عمل جائز ہے جس کا نام تحزب اور پارٹی بندی ہے وہاں بالکل چھوبھی نہیں گئی تھی جیسے ائمہ کی شان ہوتی ہے تعصب اور تنگ خیالی مطلق نہ تھی ۔ ان کمالات پر اس وقت تک نظر نہ تھی جب تک ان کے اضداد کو دیکھا نہ تھا چنانچہ جب تک میں دیوبند میں رہا یہی سمجھتا رہا کے سب علماء ایسے ہی ہوتے ہوں گے لیکن جب باہر نکلا تو یہ معلوم ہوا کہ آفا قہاگر دیدہ ام مہربتان و رزیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزی دیگری کہیں یہ رنگ نہ دیکھا بلکہ یوں کہئے کہ وہ حضرات ہمیں ایک معنی کر بگاڑ گئے ان کے مقابلہ میں کوئی بزرگ نظر ہی نہیں آتا ؛ ہمہ شہر پرز خوباں منم و خیال ما ہے چہ کنم کہ چشم بدخونہ کند بہ کس نگاہے انہیں اکابر کی سادگی وتواضع کے سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ بزرگوں کے ہاتھ چومنا یہ بالکل نئی عادت ہے ہمارے طالب علمی کے زمانہ میں ایسے ایسے تو اکابر موجود تھے لیکن ان کے ہاتھ کوئی نہ چومتا تھا یوں ہاتھ چومنا بلکہ پاؤں چومنا بھی جائز ہے مگر رسما کبر وریاء کا مقدمہ ہے اس زمانہ میں دست بوسی کے بجائے قلب بوسی ہوتی تھی اور اصل برکت کی چیز قلب بوسی ہی ہے مولانا رومی کا مشہور ارشاد ہے ؛