ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کے ساتھ اس اعتدال کے حصول کے لئے یہ تدبیر بھی معین ہے کہ جو کلام کرنا ہو تھوڑے تھوڑے فصل سے تین مرتبہ یہ سوچے کہ اگر یہ کلام نہ کیا جائے تو اس میں کوئی ضرر تو نہیں ہے دنیا کا یا دین کا اگر تینوں دفعہ سوچنے کے بعد یہ رائے قائم ہوکہ اگر یہ کلام نہ کریں گے تو ضرر ہوگا خواہ دین کا یا دنیا کا تب تو وہ کلام ضروری سمجھا جائے ورنہ نہیں ابتدا میں تو اس سوچنے میں ذرا تکلف ہوگا اور بعض اوقات غلطی بھی ہوگی لیکن پھر اس کی مشق ہو جائے گی اور رفتہ رفتہ اعتدال طبعی میسر ہوجائے گا ۔ میرے ذوق میں تو ضروری کلام کی سہل یہ پہچان ہے عرض کیا گیا کہ اس اصول کی بناء پر تو مزاح وغیرہ سب ترک کرنا ہوگا کیونکہ اس کے ترک سے کوئی ضرر تھوڑا ہی لازم آتا ہے ۔ فرمایا کہ مبتدی کے لئے تو اس کا بھی ترک ضروری ہوگا مگر اعتدال میں جب رسوخ ہوجائے تو پھر راسخ شخص کو بدون اس معیار کے بھی اس کی اجازت ہے لیکن انہاک کی اور کثرت کی اس کو بھی ممانعت ہوگی اور راسخ شخص کو جو اجازت ہے تو اس لئے کہ وہ حد سے نہیں بڑھے گا اور مزاح بھی وہی مسنون ہے کہ اس میں اعتدال ہو انہاک نہ ہو ۔ بلا ضرورت انہاک تو کلام محمود میں بھی ممنوع ہے چنانچہ حضرت شیخ عطار فرماتے ہیں دل زپر گفتن بمیرد وربدن گرچہ گفتارت بود در عدن یعنی زیادہ بولنے سے دل مرجاتا ہے اگرچہ باتیں ایسی اچھی اچھی ہوں جیسے در عدن چنانچہ حدیث شریف میں بھی کثرت کلام کی ممانعت آئی ہے چنانچہ بروایت ترمذی ارشاد ہے فان کثرۃ الکلام بغیر ذکر اللہ قسوۃ القلب اور گو عموما کلام کی تین قسمیں سمجھی جاتی ہیں ۔ مضر ۔ نافع ۔ اور عبث یعنی نہ نافع ہو نہ مضر لیکن میرے نزدیک یہ تقسیم ثلاثی محض ظاہری ہے اور حقیقی تقسیم فقط تقسیم ثنائی ہے یعنی نافع اور مضر کیونکہ اگر عبث کو بھی غور کرکے دیکھا جائے تو وہ بھی مضر ہی میں داخل ہے گو واقع میں ایک درجہ کلام کا وہ بھی ہے کہ نہ نافع