ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ترجیح دیتے ہیں فرماتے ہیں ۔ مترس ازمحبت کہ خاکت کند کہ باقی شوی چون ہلاکت کند خاک ہونا وہی گم ہونا ہے جس کی تفسیر اوپر آچکی اوراحوال وکیفیات جن میں لذت ہوتی ہے ان کے متعلق حضرت جنید علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں تلک خیالات تربٰی بھا اطفال الطریقہ یعنی یہ احوال وکیفیات تو محض دل خوش کن خیالات ہیں جو اطفال طریق کو بہلانے کے لئے اور راہ پر ڈالنے کے لئے ہوتے ہیں جیسے کسی بچہ نے پڑھنا شروع کیا تو پہلے اس کو لڈو کھلا کھلا کر شوق دلاتے ہیں جب ذرا اس کو علم کا چسکا لگ گیا تو پھر وہ خود الٹا استاد کو لڈو دے دے کر سبق پڑھتا ہے لیجئے حضرت جنید کتنے بڑے صاحب طریق ہیں وہ یہ درجہ سمجھتے ہیں لذت کا یا بالفاظ دیگر یوں کہئے کہ جس مریض سے غذا بلا اچار چٹنی کے نہ کھائی جاسکے اس کو طبیب عارضی طور پربمصلحت اجازت دے دیتے ہیں کہ بھائی اگر تجھ سے یوں غذا نہیں کھائی جاتی تو تو دستر خوان پر کچھ اچار چٹنی بھی رکھ لیا کر ۔ کسی طرح بقدر ضرورت غذا تو پیٹ میں پہنچے جس پر حیات کا دارو مدار ہے اھ ۔ پھر حضرت اقدس مد ظلہم العالی نے فرمایا کہ اگر باوجود لذت کی اس تحقیق کے سمجھ لینے کے پھر بھی طبعا اس کی خواہش ہو بالخصوص اس نیت سے کہ یہ اعمال مقصودہ میں معین ہوگی تو اس کے حصول کے لئے صرف دعا کر لینے کا مضائقہ نہیں لیکن اس کی تحصیل کی تدبیر نہ کرے اور تدبیر میں یہ بھی داخل ہے کہ مثلا شیخ سے لذت کے حصول کا طریق پوچھنے لگے اس سے پوچھنا یہ خود خلاف اصول ہے کیونکہ یہ نہ اس کے ذمہ ہے نہ اس کے قبضہ میں ہے بلکہ شیوخ تو بیچارے خود ہی قبض میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی ایسی شدید حالت ہوتی ہے کہ اگر مرید پر وہی حالت طاری ہوجائے تو اس سے سوائے خود کشی کے اوپر نہ بن پڑے سو جب وہ خود اپنا ہی علاج نہیں کر