ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کی بھی زیادہ تر یہی رائے ہوئی کیونکہ اسی میں مصلحت معلوم ہوئی اور مصلحت کھلی ہوئی تھی ۔ کیونکہ وہ سب قیدی بڑے بڑے سردار تھے ۔ یہ خیال ہوا کہ اگر ان کو چھوڑ دیا جائیگا تو ان کی تالیف قلب ہوگی ۔ ممکن ہے کہ حضور کی شان کرم کو دیکھ کر ان لوگوں کو محبت ہو اور اسلام لے آئیں اور یہ رائے محض اس وجہ سے نہ تھی کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی رائے مبارک یہی تھی بلکہ خود صحابہ کی بھی آزادنہ رائے اس مصلحت سے جس کا ابھی ذکر کیا گیا یہی تھی اور مشورہ اسی کیا بھی جاتا ہے کہ مختلف رائیں معلوم ہوں جن میں سے پھر مشتشیر یا امیر ایک کو ترجیح دے سکے اور مشورہ کا حاصل کا حاصل یہی ہے کہ سب کی رائے ظاہر ہوجائے اس لئے صحابہ نے آزادانہ اپنی رائے پیش کی تھی ۔ اتنی بڑی جماعت میں صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذ اس رائے میں موافق نہ تھے کہ ان قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے ۔ سب مجمع میں ان دو بزرگوں کی یہ رائے تھی کہ یہ بڑے بڑے سردار ہیں ان سب کو قتل کردیا جائے تاکہ کفر کے شوکت ٹوٹ جائے اور مسلمانوں کی یہ دھاک بیٹھ جائے کہ افوہ ان میں اتنی قوت ہے کہ کسی جماعت کی پرواہ نہیں کی اور کسی کو تدبیر و تالیف سے اپنے میں مدغم کرنا نہیں چاہتے سب سے مستغنی ہیں ۔ جب رائے کا انتخاب ہوا تو یہی رائے منتخب ہوئی کہ فدیہ لیکر سب کو چھوڑ دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اس وقت دیکھئے صاف اسی کثرت رائے کی صورت تھی اگر یہ طریقہ کثرت رائے کا حق ہوتا تو اس کے خلاف آیت کیوں نازل فرمائی گئی اور آیت بھی کیسی سخت ۔ ارشاد ہوا لوکا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم فیہ عذاب عظیم یعنی اگر تمہاری تقدیر میں پہلے سے خبر نہ لکھ دی گئی ہوتی تو تم نے جو عمل کیا اس پر عذاب عظیم آتا جب یہ آیت نازل ہوچکی تو حضور کو دیکھا گیا کہ رو رہے ہیں ۔ حضرات صحابہ نے پریشان ہوکر پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے ۔ فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب قریب آگیا تھا لیکن رک گیا اور اگر نازل ہو جاتا تو سوائے عمر اور سعد بن معاذ کے کوئی نہ بچتا سب ہلا ک ہوجاتے