ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
تھا ۔ حضرت اقدس نے یہ کہلا بھیجا کہ آج ضعف زیادہ ہے ہجوم کا تحمل نہیں لہذا صرف چند صاحبوں کو بلا سکتا ہوں اور بقیہ سے معافی چاہتا ہوں یہ سن کر سب نے بلا ادنی تامل قبول کیا بلکہ از خود واپس تشریف لے گئے ۔ پھر موجودین کی ایک فہرست مرتب کی گئی جس میں سے بلانے کے لئے پہلے 18 صاحب منتخب کئے گئے اور نو باقی رہے لیکن حضرت اقدس نے چاہا کہ نہ بلائے جانیوالوں کی تعداد زیادہ ہو جن میں مخصوص حضرات بھی کافی تعداد میں ہوں تاکہ ان کو خصوصیت کا ناز نہ ہو اور غیر مخصوصین کو اپنی عدم خصوصیت پر حسرت نہ ہو اور اجمالی طور پر فرمایا کہ اس کا عکس ہونا چاہئے چنانچہ فہرست پر نظر ثانی کی گئی تو حسن اتفاق سے جو تعداد انتخاب میں آئی وہ بالکل سابق کا عکس تھا یعنی نو بلانے کے لئے اٹھارہ واپسی کیلئے اور حضرت اقدس یہی چاہتے تھے اس کے متعلق فرمایا کہ انتخاب کرتے وقت مجھ کو بہت ندامت ہوئی لیکن انتخاب نہ کرتا تو کیا کرتا جہاں تک ہوسکا انتخاب میں اسکی رعایت کی گئی کہ اوروں کی دل شکنی نہ ہو اس کے بعد ایک محب خاص نے تبدیل علاج کی ضرورت پر گفتگو شروع کی تو فرمایا کہ اس وقت یہ گفتگو بے نتیجہ ہے کیونکہ بلا مشورہ کچھ طے نہیں کیا جاسکتا ۔ عجلت مناسب نہیں ۔ جو شقیق ہیں ان کے سب پہلوؤں پر غور کرنے کی مشورہ جو مسنون ہے تو اسی مصلحت کے لئے کہ تمام شقوق سامنے آجائیں پھر ان میں ایک شق کو ترجیح دیدی جاوے لیکن اس انتخاب کے لئے کثرت رائے صحیح طریقہ نہیں جیسا اس وقت عام مذاق ہوگیا ۔ کثرت رائے کے غیر صحیح ہونے کی ایک خاص دلیل نہایت قوی اسی وقت ذہن میں آئی وہ یہ کہ جنگ بدر میں ستر قیدی حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں لائے گئے اس وقت تک اس کے متعلق کوئی نص تھی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاوے ۔ حضور نے صحابہ سے مشورہ کیا ۔ خود حضور کی رائے مبارک یہ تھی کہ کچھ فدیہ لیکر سب کو چھوڑ دیا جائے ۔ آپ تو بڑے رحیم کریم تھے ۔ خود صحابہ