ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ایمان بھی نہیں پہلے اس کے ایمان کی فکر کیجئے خواہ بے نمازی ہی رہے وہ بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ اس کا کیا علاج میں نے کہا کہ اس کا علاج تو ہے لیکن اگر اس کی لم نہ پوچھی جاوے اور بلا دلیل اس پر عمل کیا جاوے تو بتاؤں انہوں نے یہ شرط مان لی میں نے کہا کہ ان کو علی گڑھ کا لج سے ہٹا کر کسی سرکاری اسکول میں داخل کرایا جاوے چنانچہ انہوں نے یہی کیا تقریبا سال بھر کے بعد پھر جب بریلی جانے کا اتفاق ہوا وہ پھر ملے اور بیان کیا کہ اب وہ لڑکا پکا دیندار اور نمازی ہوگیا ۔ اس وقت خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ اب تو اس کی وجہ بتادیجئے ۔ میں نے کہا کہ علی گڑھ کالج میں تو سب آزادی خیال مسلمان ہی لڑکوں کا مجمع تھا آزادی سے جو چاہتے تھے بک دیتے تھے وہاں حمیت اسلام کے جزبہ کا کوئی محرک نہ تھا جب سرکاری اسکول میں داخل ہوگیا تو وہاں زیادہ تر ہندوؤں کے لڑکوں سے سابقہ پڑا اور ان میں عادت چھیڑ چھاڑ کی ہوتی ہے وہ مزہبی گفتگو اسلام کے خلاف کرتے تھے یہ حمیت قومی میں جواب دیتا تھا اس ضد میں آکر یہ دین پر پختہ ہوگیا اس کو سن کر خان صاحب کہنے لگے کہ جی ہاں یہ ہی واقعہ بھی ہے پھر تو یہاں تک نوبت پہنچی کہ اس نے مجھ سے بیعت ہونے کی درخواست کی گو میں نے مرید نہیں کیا کیونکہ میں ایسے جلدی کسی کو بیعت نہیں کیا کرتا مگر وہ یہاں تک پہنچ گیا تھا ۔ تو میری اسی پر نظر ہوگئی کہ انسان کے اندر پچ کا مادہ ہے چنانچہ اس موقعہ پر پچ ہی کام آئی جو ملامت اور اعتراض سے ابھری تو علماء کوبھی جہلاء کے ملامت سے بد دل نہ ہونا چاہئے اور اس واقعہ میں اللہ تعالٰی کی دستگیری ہے کہ اس کے لئے جو تجویز نافع تھی وہ ہی ذہن میں آئی حالانکہ بظاہر یہ الٹی سی بات تھی اور قبل عمل دوسروں کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتی تھی اسی لئے میں اس پر تفریعا یہ ایک بات بھی کہا کرتا ہوں کہ جس پر اعتماد ہو اس سے قیل وقال نہیں کرنا چاہئے کہ اس کی کیا وجہ اس کی کیا وجہ ۔ اگر مریض طبیب سے ہر نسخہ کی وجہ پوچھے گا تو طبیب بد دل ہوجائے گا البتہ اگر کسی طبیب پر اعتماد نہ رہے تو اس کو چھوڑ دینا تو برا نہیں لیکن اس سے ہر ہر دواکی