ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کام نہیں ۔ یہ ملکہ اللہ تعالٰی نے حضرات مجتہدین ہی کو عطا فرمایا تھا ۔ پس در حقیقت عاقل وہی حضرات تھے اور آج جن کو بڑا عاقل سمجھا جاتا ہے وہ اہل صنعت ہیں اہل عقل نہیں اور بقول حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ قینچی چاقو اچھے بنانتے ہیں ۔ عاقل نہیں آکل ہیں ۔ یعنی کھانا کمانا اچھا جانتے ہیں ۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ صناعین کو عاقل کہتے ہیں ایک نو تعلیم یافتہ نے ایک ماہواری رسالہ میں اپنے مضمون میں علماء پر یہی اعتراض کیا ہے کہ ان میں عقل معاد تو ہے عقل معاش نہیں حالانکہ وہ بھی ضروری ہے انہیں چاہئے کہ ہوائی جیاز مورٹر وغیرہ بنانا بھی سیکھیں اور سکھائیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر صنعتوں کے جاننے ہی کا نام عقل ہے تو ریل سفر کرنے والوں سے جن میں بڑے بڑے پڑھے لکھے اور عاقل بھی ہوتے ہیں ذرا پوچھئے کہ انجن کس طرح چلایا جاتا اور اس کے کل پر زوں کی کیا حقیقت ہے ان میں سے باستثناء شاذ ایک بھی ایسا نہ نکلے گا کہ اس کی پوری واقفیت رکھتا ہو حالانکہ اس سے نفع سب اٹھا رہے ہیں تو کیا یہ سب پاگل ہیں ان میں کوئی عاقل ہی نہیں اور کیا صرف ڈرائیو ہی عاقل ہے جو ایک ادنی تنخواہ دار اور ذلیل و خوار ملازم ہے کل پر زوں کی حقیقت تو شاید وائسرائے کو بھی معلوم نہ ہو تو کیا اس نو تعلیم یا فتہ کے نزدیک وہ بھی عاقل نہیں اگر وہ عاقل نہیں تو اس کے تو یہ معنے ہوئے کہ گور نمنٹ بھی عاقل نہیں جو ایک غیر عاقل کو اتنی بڑی تنخواہ دے رہی ہے پس جس طرح صنعتیں نہ جاننے کی وجہ عائسرائے کو کم عاقل نہیں کہا جاتا ۔ اسی طرح علماء کو بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ ہاں میان خود ان صنعتوں کے سیکھنے اور دینوی ترقی کرنے کا مخالف نہیں اگر ترقی کریں اجازت ہے شریعت میں منع کون کرتا ہے باقی یہ نہ کمال ہے نہ نقص ایک مستقل چیز ہے اور مباح ہے جس کو منااسبت ہو کرے بلکہ اگر اچھی نیت سے ہو ہم اس کو مستحب کہتے ہیں لیکن یہ ہمارا منصبی فرض نہیں کہ ہم اس کی ترغیب دیں یہی کافی ہے کہ منع نہ کریں ۔ سب کو معلوم ہے کہ حکیم عبدالمجید عبدالعزیز کا یہ کام ہے کہ