ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کو جائے تو اس سے اصل مقصود تو عبارت ہے یعنی طواف بیت اللہ اور وقوف عرفات لیکن راستے میں بمنئی اور سمندر کی سیر کا مطف بھی حاصل ہوجاتا ہے ۔ غرض لوگوں نے یہ گت بنا رکھی ہے شریعت کی ۔ نوٹ از جامع ۔ بعد خاست مجلس ایک صاحب نے جو معززین لکھئنو میں سے ہیں اور بہت قابل وکیل اور ایک کالج میں محمڑن لا ( یعنی قانون شرع محمدی کے پرو فیسر ہیں احقر سے نہایت مسرت کیساتھ فرمایا کہ آج تو حضرت کی تقریر سے میرا ایک بہت پرانا شبہ زائل ہوگیا ۔ میں اس شبہ میں مبتلا تھا کہ جب قرآن احدیث موجود ہیں اور ہم عربی بھی جانتے ہیں ۔( یہ صاحب عربی بھی جانتے ہیں ) تو استنباط مسائل مثل فقہاء کے ہم بھی کرسکتے ہیں ان کی تقلید کی کیا ضرورت ہے حضرت کی اس مثال سے میری پوری تسلی ہوگئی کہ اگر میں کسی قانونی کتاب کی شرح لکھوں تو وہ اس بناء پر معتبر نہ ہوگی کہ میں گو زبان ہوں لیکن فن تو نہیں جانتا ۔ انہیں صاحب نے ی واقعہ بھی نقل کیا کہ ایک مشہور مسلمان جج نے فقہاء مجتہدین کے خلاف اپنی رائے سے کسی شرعی حق کے متعلق فیصلہ دیا تھا اور ئی لکھا تھا کہ قرآن اور حدیث موجود ہیں ان کو میں بھی سمجھ سکتا ہوں لہزا کوئی وجہ نہیں کہ میں فقہاء کے مسائل کا اتباع کروں اور انہیں کی رائے کے مطابق فیصلہ دوں ۔ اس فیصلہ کو پریوں کونسل لندن نے یہ لکھ کر مسترد کر دیا کہ مسائل شرعیہ میں ائمہ مجتہدین ہی کی رائے معتبر ہے کیونکہ انہوں نے اپنی ساری عمر انہیں مسائل کے سلجھانے میں صرف کردی جتنے وہ اس فن سے واقف تھے اتنا اور کوئی نہیں ہوسکتا لہزا تمہاری رائے ان کی رائے کے مقابلہ میں ہرگز قابل اعتبار نہ ہوگی اور ہرگز نہ مانی جائے گی ۔ حضرت اقدس اس واقعہ کو سن کو بہت مسرور ہوئے ۔