ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ہوئی مگر ان پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا جن کے ساتھ اختلاف تھا ۔ اس محبوب اختلاف پر یاد آیا ان ہی بزرگوں کے صدقہ میں ہم جیسوں کو بھی ان حضرات کی تشبہ کی تھوڑی بہت توفیق ہوگئی چنانچہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ میرے استاد اور ہر لحاظ سے میرے بڑے تھے مگر سیاسی تحریک میں شرکت کے متعلق میں نے مولانا سے اختلاف کیا مگر نہایت ادب کے ساتھ اور مولانا کو بھی میرے اس اختلاف سے ذرہ برابر ناگواری نہیں ہوئی ۔ چنانچہ ایک بار ایک مقرب متعقد نے میرٹھ میں مجمع کے سامنے مجھ کر کچھ نکتہ جینی کی جب مولانا کو اس کی خبر پہنچی تو اظہار ناراضی فرمایا اور فرمایا کہ وہیں جاکر اسی مجمع میں اپنے قول کو رد کرو اس مسئلہ میں کیا مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے یہ محض میری رائے ہے ممکن ہے کہ اس کی رائے صیح ہو اور مولانا سے تجاوز کر کے میں نے تو حضرت مولانا گنگوہی سے بھی بعض مسائل میں اختلاف کیا اور اس اختلاف کا علم بھی مولانا کو میں نے کرا دیا لیکن شفقت میں کبھی ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ۔ بلکہ جب میں نے والد صاحب مرحوم کی بنک کی رقم کے منافع کا حصہ ترکہ میں نہیں لیا اور اپنی رائے حرمت کی اطلاع بھی کردی تھی اور مولانا کے نزدیک اس میں تنگی نہ تھی تو مولوی محمد یحیی صاحب نے عرض کیا کہ پھر آپ اس سے (یعنی مجھ سے ) لے لینے کو کیون نہیں فرما دیتے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ سبحان اللہ ایک شخص اپنی ہمت سے تقوٰی اخیتار کرنا چاہتا ہے ۔کیا میں اس کو تقوٰی قرار دے کر الٹے خوش تھے ۔ غرض اگر اپنے بڑوں سے بھی اختلاف نیک نیتی کے ساتھ اور محض دین کے لئے ہو تو کچھ مضائقہ نہیں حتی کہ بعض دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک کام حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کرنا چاہتے ہیں اور حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ حضور کو اس کے ترک کی رائے دیتے ہیں پھر آسمان سے آیت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوتی ہے لیکن باوجود اس کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کبھی یہ دعویٰ پیدا نہیں ہوا کہ