ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
منع کیا کرتا ہوں اگر میں یہاں شریک ہوگیا تو وہاں کے لوگ کہیں گے وہان بھلے شریک ہوگئے تھے حضرت صاحب بے بجائے برا ماننے کے مولانا کے اس انکار کی بہت تحسین فرمائی اور فرمائی کہ میں تمہارے جانے سے اتنا خوش نہ ہوتا جتنا تمہارے نہ جانے سے خوش ہوں ۔ اب دیکھئے پیر سے زیادہ کون محبوب اور معظم ہوگا مگر دین کی حفاظت ان کے اتباع سے بھی زیادہ ضروری تھی اس لئے دونوں کے ظاہری تعارض کے وقت اسی کو ترجیح دی واقعی حفاظت دین بڑی نازک خدمت ہے ۔ سارے پہلوؤں پر نظر رکھنی پڑتی ہے کہ نہ چھوٹوں کو نقصان پہنچے نہ بڑوں کے ساتھ ہونی چاہئے اس میں فرق آئے ۔ مولانا نصیرالدین کو اپنے شیخ حضرت سلطان جی سے مسئلہ سماع میں اختلاف تھا ۔ مزامیر کے ساتھ تو وہ بھی نہ سنتے تھے لیکن مولانا نصٰیرالدین بلا مزامیر سننے کو بھی خلاف سنت سمجھتے تھے ۔ کسی نے کہا کہ سلطان جی تو سماع سنتے ہیں مولانا نے جواب دیا کہ فعل پیران سنت نہ باشد ۔ کسی نے ان کا یہ قول سلطان جی سے نقل کر دیا تو آپ نے فرمایا کہ نصیرالدین راست می گوید ۔ سبحان اللہ یہ حضرات تھے دین کے سچے خادم اور سچے عاشق وزیر چنن شہر یارے چناں حاجی محمد اعلی انبٹھوی نے حج سے واپس آکر یہ مشہور کیا کہ حضرت حاجی صاحب نے مجھ کو سماع کی اجازت دیدی ہے ۔ کسی نے حضرت مولانا گنگوہی سے یہ روایت نقل کی مولانا نے سن کر فرمایا کہ وہ غلط کہتے ہیں اور اگر وہ صحیح کہتے ہیں تو حاجی صاحب غلط کہتے ہیں ۔ ایسے مسائل میں خود حاجی صاحب کے ذمہ ہے کہ ہم سے پوچھ پوچھ کر عمل کریں البتہ اصلاح نفس کے مسائل میں ہمارے ذمہ ہے حضرت حاجی صاحب کا اتباع اھ اس ارشاد پر عوام میں بڑا چرچا ہوا مگر اس مفسدہ کا جو ان صاحب کی روایت سے ہوتا بالکل انسداد ہوگیا ۔ تو مولانا نے حفاظت دین کے مقابلہ میں اپنی بدنامی کی بھی کچھ پروانہ کی لوگوں نے حضرت حاجی صاحب تک یہ شکایتیں پہنچائیں مگر وہاں بھلا کیا اثر ہوتا گو اوروں کو شکایت