ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
آتی نہ اس سے ان کو مناسبت حالانکہ یہ بہت ضروری چیز ہے ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ سیاست دانی مولویت کے لئے شرط نہیں اگر کسی مولوی کو اس سے مناسبت نہ ہو تو اس سے اس کی مولویت میں کچھ فرق نہیں آتا ۔ یہ مناسبت الگ چیز ہے حتے کہ نبوت تک کے لئے بھی لازم نہیں چنانچہ یہ آیات اس کے متعلق نص صریح ہیں الم ترالی الملا من بنی اسرائیل من بعد موسٰی اذ قالو لنبی لھم ابعث لنا ملکا نقاتل فی سبیل اللہ الی قولہ تعالٰی وقال لھم نبیھم ان اللہ بعث لکم طالوت ملکا دیکھئے باوجود ایک نبی کے موجود ایک نبی کے موجود ہونے کے پھر بھی خاص قتال کے لئے ایک مستقل بادشاہ کی ضرورت سمجھی گئی اور اس کے لئے اللہ تعالٰی سے عرض کیا گیا ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت شمویل علیہ السلام کے ہوتے ہوئے جو کہ نبی تھے طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی تک کے لئے سیاست دان ہونا ضروری نہیں تو جب نبوت سے سیاست کا مفارق ہونا ممکن ہے تو مولویت سے سیاست کے مفارق ہونے میں کیا اشکال ہے اور کیوں اعتراض ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر ایک جماعت سیاست دان ہو اور دوسری جماعت صرف احکام کی تبلیغ کرے تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں جیسے کہ طالوت تو سیاسی امور کو انجام دیتے تھے اور حضرت شمویل علیہ السلام احکام شرعیہ کی تبلیغ فرماتے تھے ۔ البتہ اس صورت میں اہل سیاست کے ذمہ یہ ضروری ہوگا کہ وہ اہل شریعت سے جواز وعدم جواز کی تحقیق کر کرکے اپنے اسی امور کو انجام دیں ہاں بعض انبیاء جامع بھی ہوئے ہیں چنانچہ ہمارے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے اور بادشاہ بھی آپ میں دونوں شاخیں بدرجہ کمال موجود تھیں لیکن ہر نبی تو جامع نہیں ہوئے ۔ اسی طرح اگر حضور کے غلاموں میں بھی کوئی عالم مولویت اور سیاست دونوں کا جامع نہ ہو تو اس کو ناقص اور قابل ملامت کیوں سمجھا جاتا ہے اب دیکھئے جیسے طبیب کا نبی ہونا ضروری نہیں تو اس صورت میں اگر دواکی ضروری ہوگی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم