ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ہم تو اس کے حال کو محض الفاظ میں نقل کردیتے ہیں جیسے طوطے صاحب نبی جی بھیجو نبی جی بھیجو رٹ رہے تھے مگر جب بلی نے آکر دبوچا تو سوائے ٹیں ٹیں کے اس وقت کچھ منہ سے نہ نکلا سب پڑھنا بھول گئے کیونکہ وہ پڑھنا نرا قال تھا حال نہ تھا ۔ اسی طرح ہمارا صرف قال ہے اور عارف کا حال ہوتا ہے صاحب حال کی تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اس کو نہ کسی سے نفع کی توقع ہوتی ہے نہ کسی کے ضرر کا خوف ہوتا ہے رہے یہ نقال جو تصوف بگھارتے ہیں ان کے پکڑنے کو تو اگر کوئی کانٹیبل آجائے تو ڈر کے مارے کانپنے لگیں اور ذہان ساری دنیا کے بادشاہ بھی ہجوم کرکے اس پر چڑہائی کردیں تب بھی اس کے قلب میں ذرہ برابر اثر نہ ہو یہ فرق ہے نقال میں اور صوفی میں اور یہ حال اگر کسی کو حاصل کرنا ہوتو اس کی یہ تدبیر نہیں کہ نرمی تحقیق علمی کو کافی سمجھ لے بلکہ اس کے لئے شیخ کی ضرورت ہے تقریر کے وقت ایک صآحب کے اس کہنے پر کہ اب تو یہ مسئلہ بہت آسان ہوگیا فرمایا کہ صرف لفظ آسان ہوگئے لیکن اس آسانی سے کیا ہوتا ہے بس ایسا آسان ہوگیا جیسے ایک پیر زادے جو کماؤ کھاؤ تھے وہ بہت لمبے لمبے سفر پیدل کرتے تھے اور جہاں جہاں ان کے مرید ہوتے وہاں ٹھہرتے اور ایک ایک دن میں کئی کئی جگہ دعوت کھاتے ۔ وہ چلتے بھی بہت تھے پچاس ساٹھ کوس روزانہ پیدل چل لیتے تھے اور کھاؤ بھی بہت تھے کل ملا کر چار پانچ سیر روز کھالیتے ہوں گے ایک مرتبہ ایک نائی ان کے ساتھ ہوگیا جو چلتے چلتے اور کھاتے کھاتے تھک گیا جب اس نے انکار کیا تو پیرزادے صاحب کہتے ہیں کہ ارے بیوقوف چلنا اور کھانا بھی کوئی مشکل کام ہے پاؤں اٹھایا آگے رکھ دیا لقمہ اٹھایا منہ میں رکھ دیا ۔ اب دیکھئے لفظ تو کتنے آسان ہیں لیکن کوئی کر کے دیکھے اس وقت اصل اور نقل کا فرق معلوم ہوگا جیسے ایک شخص نے تو شراب پی رکھی ہے ایسے شخص کی نشہ میں ایک خاص ہیئت ہوتی ہے اور ایک شرابیوں کی محض نقل کررہا ہے اس نے خود شراب نہیں پی تو جس نے شرابیوں کو دیکھا ہوگا وہ دیکھتے ہی پہچان