ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
فائدہ ہے کہ آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے اس لئے ہم جان بوجھ کر ان کے دھوکہ میں آجاتے ہیں ۔ غرض دوسروں کے کہنے سے بھی انہوں نے اپنے اس معمول کو چھوڑا نہیں باقی ذہین تو وہ بھی اسی درجہ کے تھے جیسے ان کے باپ تھے جن کا ایک واقعہ یاد آیا ۔ کہ ہر قل نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق آپ کے ایک سفیر سے پوچھا کہ اپنے امیر کا کچھ حال بیان کرو کہ وہ کیسے ہیں ۔ سفیر نے کیسی جامع مانع تعریف کی کہا لایخدع ولا یخدع نہ وہ کسی کو دھوکہ دیتے ہیں نہ دھوکہ میں آتے ہیں ۔ ہر قل کو اس کی بڑی قدر ہوئی ۔ ارکان دولت سے کہا کہ تم نے سنا ۔ دھوکہ نہ دینا دلیل ہے دین کی اور دھوکہ میں نہ آنا دلیل ہے عقل کی لہذا یہ شخص دین اور عقل دونوں کا جامع ہے ۔ اور جس میں یہ دو دولتیں ہوں اس کا کوئی دنیا میں مقابلہ نہیں کرسکتا اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا غرض حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کو دھوکہ نہیں ہوتا تھا ۔ وہ قصدا دھوکہ قبول کرلیتے تھے ۔ تو احسان جس کے ساتھ بھی ہوا اچھا ہے ۔ ہمارے حضرت حاجی صاحب جہاں کوئی سائل آتا بڑی بشاشت سے اس کی خدمت کرتے اور اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے تھے ۔ کسی کو کسی کو زیادہ ایک دفعہ حضرت کچھ تقریر فرما رہے تھے ۔ شاید مثنوی کا سبق ہو رہا تھا مجلس بہت گرم تھی اتنے میں ایک سائل نے آکر بیچ میں اپنی حاجت پیش کردی اور حضرت فورا تقریر ختم کر کے بڑی بشاشت سے اس کی کچھ خدمت کرنے میں مشغول ہوگئے ۔ جب وہ چلا گیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ کہاں بیچ میں آکر حارج ہوگیا کیس اچھی تقریر ہو رہی تھی ۔ فرمایا خبردار سائل سے تنگ نہیں ہوا کرتے ۔ یہ سائلین ہمارے محسن ہیں ۔ ہمارا ذخیرہ آخرت میں بلا عوض پہنچا دیتے ہیں ۔ اگر سفر میں کوئی قلی تمہارا اسباب اٹھا کر ریل میں رکھ آئے اور تم سے کچھ مزدوری بھی نہ مانگے تو اس سے خوش ہونا چاہئے اور اس کا ممنون ہونا چاہئے نہ کہ اور اس سے الٹے ناخوش ہو ۔ اگر سارے مساکین متفق ہوکر خیرات لینا چھوڑ دیں تو پھر کوئی اور سہل ذریعہ ہی نہیں جو آخرت میں آپ کے اموال پہنچ سکیں یہ سائل لوگ اٹھا اٹھا کر وہاں