ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
رائے کا تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ کسی نفسانیت سے نہ ہو محض خلوص سے ہو چنانچہ پہلے زمانہ میں یہی حال تھا اور اس زمانہ میں بھی خدا کے بندے ایسے موجود ہیں جو باوجود اختلاف رائے اور اختلاف مسلک کے متعصب نہیں ۔ چنانچہ مولوی اسماعیل صاحب کاندہلوی کہتے تھے کہ بھوپال میں ایک حنفی عالم مولوی ایوب صاحب کے یہاں حدیث کا دورہ ہوتا تھا ۔ ایک شافعی طالب علم بھی اس دورہ میں شریک تھے ۔ مولوی صاحب نے کسی حدیث کی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فلاں مسئلہ میں سچ یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے پاس تو یہ صریح حدیث موجود ہے اور ہمارے امام صاحب کو غالبا یہ حدیث نہیں پہنچی اس لئے ان کو قیاس کرنا پڑا پھر کئی دن بعد ایک اور حدیث آگئی ۔ مولوی صاحب کا ذہن دفعتہ اس طرف منتقل ہوا کہ البتہ امام صاحب کے مسئلہ پر اس حدیث اسے استدلال ہوسکتا ہے یہ سن کر وہ شافعی طالب علم جو دورہ میں شریک تھے شگفتہ ہوگئے اور استاد کہا کہ مجھے تو اس دن سے ایسا رنج وغم تھا کہ ابوحنیفہ جیسا امام اور حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس پر عمل کرے ۔ اس کا اتنا غم ہوا کہ میں نے اس وقت سے کھانا بھی اچھی طرح نہیں کھایا ۔ الحمداللہ آج شگفتگی ہوئی آج پیٹ بھر کر کھانا کھاؤں گا ۔ یہ تو شافعی کا قصہ ہے ۔ اب حنفی کا سنئے مولانا گنگوہی درس حدیث کے وقت حدیثوں کی اس طور پر تقریر کرتے کہ ساتھ کے ساتھ مسائل حنفیہ کی بھی تائید نہایت واضح طور پر کرتے چلے جاتے ۔ مولانا کو اس میں بہت ہی شرح صدر تھا ۔ یہاں تک کہ ایک بار فرمایا کہ مجھ کو تو حدیثوں میں مذہب حنفی ایسا صاف نظر آتا ہے جیسے نصف النہار کے وقت آفتاب ایک مولوی صاحب نے مولانا کی ایک تقریر سن کر جوش میں آکر کہا کہ آپ کے پاس آکر تو حدیث بھی حنفی ہو جاتی ہے مطلب یہ تھا کہ آپ ہر حدیث سے حنفیہ کی تائید فرما دیتے ہیں اگر حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ بھی اس وقت زندہ ہوتے تو اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے ۔ اس پر مولانا سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ کیا کہا ۔ اگر حضرت امام زندہ ہوتے تو کیا میں ان کے سامنے بولتا بھی اور بولتا تو