ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
جائے ہمارے بزرگ کا معتقد ہوجائے ۔ ارے کیا رکھا ہے کسی کے معتقد ہو جانے میں اگر معتقد ہو ہی گیا تو کے ٹکے مل گئے میں دیکھتا ہوں کہ آج کل کسی کے مرنے پر اس کا بڑا حق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی یاد گار بنانی شروع کردی جلاس نکالا اس کا یوم وفات منایا رزولیشن پاس کردیا ۔ اخباروں میں چھاپ دیا کہ فلانا فلانا شریک ہوا ۔ بھلا اس سے اس بیچارے کو کیا نفع پہنچا ۔ میری ہمشیرہ کا جب انتقال ہوا تو میں اس زمانہ میں جامع العلوم کانپور میں مدرس تھا ۔ جس وقت اس خبر کی اطلاع کا خط آیا میں درس دے رہاتھا ۔ گو میں نے درس موقوف نہیں کیا نہ طلبہ کو اس کی خبر ہونے دی لیکن پھر بھی آخر بہن تھیں ۔ چہراہ سے غم کے آثار سب پر ظاہر ہوگئے یہاں تک کہ طلبہ نے پوچھا کہ کیا خط میں کوئی رنج کی بات لکھی ہے اس وقت میں نے ظاہر کردیا کہ وہاں میری بہن کا انتقال ہوگیا ۔ اس پر سب نے کہا کہ ہم آج سبق نہیں پڑھیں گے میں نے کہا کہ میاں پڑھو بھی اس کو ثواب ہوگا فائدہ ہوگا لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں آج تو جی نہیں چاہتا ۔ پھر میں نے اصرار نہیں کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب ہم اجازت چاہتے ہیں کہ ہم سب قرآن شریف پڑھ کر مرحومہ کو ایصال ثواب کریں ۔ میں نے کہا کہ بھائی تمہاری خوسی ہے ۔ میں تو اپنے دوستوں کو اس کی بھی تکلیف نہیں دینا چاہتا ۔ یوں بطور خود اپنی محبت سے ایصال ثواب کریں تو اختیار ہے ۔ ایصال ثواب کی فضیلت بھی بہت ہے اس لئے میری طرف سے اجازت ہے اگر ایک طریق سے وہ یہ کہ جمع ہوکے نہیں بلکہ اپنے اپنے حجروں میں بیٹھ کر تاکہ جس کا جتنا جی چاہے پڑھے جس کا جی چاہے نہ پڑھے ۔ پھر میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے اطلاع نہ کرنا کہ کس نے کتنا بخشا ورنہ اطلاع کی ضرورت سے ہر شخص یہ چاہے گا کہ کم ازکم پانچ پارے تو پڑھوں حالانکہ اگر میری اطلاع کے لئے پانچ پارے پڑھے تو ان کا ایک حرف بھی مقبول نہیں بخلاف اس کے اگر کسی نے خلوص سے ایک بار قل ہواللہ پڑھ کر بخشا تو یہ قل ھواللہ مقبول ہے اور مرحومہ کے حق میں نافع ۔ اور وہ پانچ پارے مقبول اور نافع نہیں ۔ چنانچہ جس کو