ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
نام ہیں کیونکہ جہاں یہ پہنچتے ہیں دوسرے ہر وقت نہیں پہنچتے اسی لئے وہ بعضے لوگ ان پر اعتراض کرنے لگے پھر تقسیم کتب کے ہی سلسلہ میں فرمایا کہ کتابیں بانٹنے کی ایک اور صورت بھی ہے لیکن وہ بکھیڑے کی ہے وہ یہ کہ دو دوطلبہ کے درمیانایک ایک کتاب دی جائے لیکن اس طرح بانٹنے میں بکھیڑا تھا کیونکہ افتراق کے وقت مشکل پڑے گی اس لئے میں نے قرعہ ہی کو تجویز کیا پھر فرمایا کہ بعض تقسیم کے بکھیڑا ہونے پر گو ایک بکھیڑا ظاہری ہے ایک باطنی ایک واقعہ یا دآیا کہ جب نواب محمود علی خاں مرحوم چھتاری سے ہجرت کی نیت سے مکہ معظمہ گئے تو اپنے بعض معاملات ریاست کو طے کرنے کے لئے بیچ میں پھر چھتاری آئے تھے ۔ اس زمانہ میں جو حضرت حاجی صاحب کا خط ان کے پاس آیا تھا وہ عجیب وغریب خط ہے ۔ میں نے وہ کہیں شائع بھی کرایا ہے علاوہ اور باتوں کے جو اس میں لکھی ہیں تین چیزیں اس وقت ذہن میں ہیں ایک تو ریاست سے اپنے خرچ کے واسطے روپیہ مکہ معظمہ منگوانے کے متعلق ۔ دوسرے مساکین کے تقسیم کے واسطے منگوانے کے متعلق ۔ تیسرے ملازموں کی تنخواہوں کے متعلق ۔ ملازمین کی تنخواہوں کے متعلق تو حضرت حاجی صاحب نے یہ تحریر فرمایا کہ ان کی ایسی تنخواہ ہو جوان کے گذر کو کافی ہو ورنہ پھر خیانت کے وسوسے سے آئیں گے اپنے خرچ کے متعلق تحریر فرمایا کہ حق تو یہ تھا کہ کچھ خرچ نہ منگوایا جاتا کیونکہ تم ہجرت کرکے خانہ خدا میں آرہے ہو اس لئے خدا کے مہمان ہو ایک پیسہ بھی یہاں نہ منگوایا جاتا لیکن چونکہ ہم بچپن سے اسباب کے خوگر ہیں اس لئے اگر ترک اسباب کردیں گے تو تشویش لاحق ہوجائے گی اور تشویش اس طریق میں سخت مضر ہے اس لئے بقدر حاجت اپنے خرچ کے واسطے منگانے کا انتظام کرادینا مصلحت ہے ۔ اس خط میں سب سے عجیب بات تیسری ہے کہ مساکین کے لئے مکہ معظمہ کچھ اس مد میں خرچ کرنا ہے اس کا انتظام وہیں سے کردیا جاوے کہ بدوں آپ کے واسطہ کے ان کو پہنچ جایا کرے ۔ اس کی وجہ عجیب تحریر فرمائی کہ ہر چند سخاوت ایک محمود خصلت ہے