ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
لشکر کی بیوی سے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ مجھ کو اس وقت طھوڑ دیا جائے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں صحیح سلامت واپس آگیا تو پھر آکر اپنے آپ کو اسی طرح زنجیر سے بندھواں دوںگا اور اگر شہید ہوگیا تب بھی امیر لشکر کا کچھ حرج نہ ہوگا کیونکہ وہ مجھ سے ناراض ہیں ہی مجھ سے ان کو چھٹکارہ مل جائے گا جب بہت منت سماجت کی تو وہ اس پر راضی ہوگئیں پھر انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کچھ سامان بھی تو لڑنے کا چاہئے ۔ اس وقت سوائے امیر لشکر کے گھوڑے اور تلوار لیکر رستم کے مقابلہ کے لئے جا پہنچے لیکن اس ڈر سے کہ کہیں امیر لشکر کا سامنا نہ ہوجائے اپنا منہ چھپا لیا رستم کے پاس پہنچتے ہی انہوں نے اس کو قتل کر دیا اور فورا واپس آکر حسب وعدہ اپنے آپ کو زنجیر سے پھر بدستور سابق بندھوالیا لشکریوں کو حیرت ہوگئی کہ یہ کون دفعتہ نمودار ہوا اور رستم کا کام کرکے غائب ہوگیا وہ سمجھے کہ کوئی غیبی فرشتہ تھا ۔ جب معرکہ سر کر کے لشکر واپس آیا تب سب کو یہ واقعہ معلوم ہوا دیکھئے اطاعت اور جان نثاری اس اس کو کہتے ہیں کہ باوجود مقید کر دئے جانے کہ برا نہ مانا اور یہ کار نمایاں کر آئے اور پھر آکر اپنے آپ کو مقید کرا دیا ۔ ادھر امیر لشکر نے بھی حکم شریعت کے جاری کرنے میں عین موقع کار زار میں بھی پس و پیش نہ کیا اور چونکہ شرعی حکم تھا اس لئے ایسے کار آمد شخص کو بھی قید کر دیا اور اس کے ساتھ کچھ رعایت نہ کی ۔ بات یہ ہے کہ وہاں اصل مقصود اتباع احکام اور تحصیل رضائے الہی تھا اس کے مقابلہ میں اور کسی مصلحت کی پرواہ نہ کرتے تھے ان حضرات کا تو بس یہ مسلک تھا مصلحت دید من آنست کہ یاراں ہمہ کار بگذار بند وخم طرہ یارے گیرند اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ شہادت کے متعلق عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جہاد میں مقتول ہوکر شہید ہو جانا ہی اصل مقصود ہے حالانکہ یہ غلط ہے