ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
تہزیب وتمدن کی ہے پھر یہ لوگ کیا منہ لیکر اسلامی جہاد وغیرہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بربریت ہے حالانکہ اسلام نے جہاد میں بھی ایسے ایسے قیود و حدود مقرر فرمادے ہیں کہ دنیا کی کسی ممتدن سے ممتدن قوم کے یہاں بھی نہیں پائے جاتے مثلا یہ حکم ہے کہ اگر کسی کو بضرورت شرعی قتل کرو تو اچھے طریق سے قتل کرو ۔ بری طرح قتل نہ کرو خواہ دشمن نے کسی مسلمان کو بری طرح ہی قتل کیا ہو اور اگر ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو ۔ بیجا تکلیف نہ پہنچاؤ بلکہ جہاں تک ہوسکے راحت دو ۔ پھری اگر کندی ہوتو اس کو تیز کرلو اور مثلا یہ حکم ہے کہ اگر جہاد میں عین قتل کرنے کے وقت بھی کوئی کافر کلمہ پڑلے تو فورا اپنا ہاتھ روک لو گو تمہارے گمان میں اس نے محض اپنی جان بچانے کی غرض سے کلمہ پڑھنا ہو کیونکہ دل کا حل تو کسی کو معلوم نہیں کیا خبر کہ اس نے دل سے کلمہ پڑھا ہو محض جان بچانے کے لئے نہ پڑھا ہو چنانچہ ایک صحابی نے ایسے ہی موقع پر باوجود کلمہ پڑھ لینے کے بھی یہ سمجھ کر کہ یہ محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھ رہا ہے قتل کردیا تھا تو حضور کو ان کی یہ حرکت اس قدر ناگوار ہوئی کہ وہ صحابی اس کو تمنا کرنے لگے کہ کاش میں اس حرکت سے قبل مسلمان نہ ہوا ہوتا بعد کو ہوا ہوتا تاکہ میرا یہ جرم بھی اسلام لاکر معاف ہوجاتا ۔ حضور نے ان صحابی سے اس عذر پر کہ اس نے دل سے کلمہ تھوڑا ہی پڑھا تھا محض اپنی جان بچانے کے لئے پڑھا تھا یہ فرمایا کہ ھلا شققت قلبھ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا ۔ اب دیکئھے ہر کافر کو اسلام نے گویا اپنے آپ کو بچانے کے لئے ایک سپرد دیدی ہے کہ جھوٹ موٹ بھی اگر وہ کلمہ پڑھ لے تو بہت آسانی سے اپنی جان بچا سکتا ہے کیونکہ اس کے بعد اس کو قتل کرنا حرام قرار دیدیا گیا ہے ۔ رہا یہ امر کہ پھر اس طرح تو دھوکے دے دے کر کفار مسلمانوں کو بہت کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں سو اس کے متعلق اللہ تعالٰی نے بالکل مطمئن فرما دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے وان یرید وا ان یخدعوک فان حسبک اللہ