ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
یعنی ہم ان پڑھ جماعت ہیں نہ ہم حساب جانیں نہ کتاب ۔ اسی کو حضرت حافظ فرماتے ہیں ۔ نگار من کہ بمکتب نہ رفت ودرس نہ کرو بغزہ مسئلہ آموز صد مدرس شد غرض صحابہ کو تو اس پر فخر تھا کہ ہم لکھے پڑھے نہیں ہیں ۔ تو یہ علم گوئی فخر کی چیز نہیں ہے ہاں فخر کی چیز ہے تو وہ ہے کہ بس اللہ کا ہوجائے ۔ جو اللہ کا ہو جائے وہ اگر فخر بھی کرے تو وہ کبر نہیں ہے بلکہ وہ بھی اللہ تعالٰی ہی کی تعریف اور بڑائی ہے چنانچہ ایک بزرگ کہتے ہیں ۔ نازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است افتم بہ پائے خود کہ بکویت رسیدہ است ہر دم ہزار بوسہ زنم دست خوش را کو دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است لوگ کرامتوں کو ڈھونڈھتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ ان حضرات کے واقعات کو دیکھیں کہ ان کا ہر ہر واقعہ ایک مستقل کرامت ہے اور پھر بڑا کمال یہ تھا کہ اپنے کمالات کو ہمیشہ چھپایا ظاہر نہیں ہونے دیا چنانچہ ایک بار حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ مسجد کے حجرہ میں اپنے ایک شاگرد کے پاس تشریف کائے جن کے پاس چارپائی نہ تھی مولانا ان کے لئے خود بہ نفس نفیس گھر سے چارپائی اٹھا کر لائے ابھی لاہی رہے تھے کہ اتفاق سے ان شاگرد نے دیکھ لیا وہ دوڑ کر چارپائی اٹھانے لگے ۔ مولانا نے فورا چارپائی چھوڑ دی اور فرمایا کہ میں کوئی رعیت کا جولاہا نہیں کو اس کو پہنچاؤں تم خود لے جاؤ ۔ دیکھئے یہاں اپنے کمال تواضع کو کس لطافت کے ساتھ چھپالیا ۔ پھر فرمایا میں طالب علمی کے ختم تک اس خیال میں رہا کہ دنیا بھر کے علماء اسی شان کے ہوتے ہوں گے لیکن جب نکلا تو دیکھا کہ اور کسی جگہ یہ رنگ ہی نہیں ۔ اسوقت اپنے حضرات اساتذہ کی قدرت ہوئی کہ اللہ اکبر یہ حضرات اپنا کہیں نظیر نہیں رکھتے ۔