ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
افتراق ہوگیا ہے اگر حضرت مولانا گنگوہی رہتے تو افتراق نہ ہوتا وہ جو فرماتے اسی پر سب کا اتفاق ہوجاتا ۔ رہی یہ بات کہ وہ کیا فرماتے تو ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ وہ یوں کہتے کہ اپنا کام کرو ۔ علماء کے لئے تو اس زمانہ میں یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بقول حضرت مولانا گنگوہی بس مٹی کا مادہ بنا بیٹھا رہے یہ محاورہ میں نے مولانا ہی سے سنا ہے ۔ علماء کی تو عزت جس کی ضرورت ابقاء دین میں ہے گھر بیٹھنے ہی میں ہے اب اس کو اگر کوئی کم ہمتی پر محمول کرے تو اس کو اختیار ہے میں اس میں نزاع نہیں کرتا ۔ اچھا بھائی ہمت کرو ۔ جب میں کانپور کے مدرسہ جامع العلوم میں تھا تو اس زمانہ میں ایک متمول رئیس کا نپور آئے ۔ وہاں کے جتنے مدرسے تھے ان سب کے مہتمم اور مدرسین اپنے اپنے طلبہ کو لیکر چندہ کی غرض سے ان رئیس کے استقبال کے لئے اسٹیشن پہنچے ۔ مجھ سے بھی کہا گیا لیکن میں نے صاف انکار کریدیا کہ میں تو اپنے مدرسہ سے ایک چڑیا کے بچہ کو بھی نہ جانے دوں گا ۔ میرے نزدیک مال سے زیادہ عزت ہے اور اس صورت میں عزت تو یقینا برباد ہوگی اور مال کا ملنا محض محتمل ہے ممکن ہے کہ مل جائے اور ممکن ہے کہ نہ ملے اور دوسری صورت میں عزت تو یقینا محفوظ ہے چاہے مال ملے چاہے نہ ملے ۔ غرض میں نے تو اپنے مدرسہ میں سے کسی کو نہیں جانے دیا دوسرے مدرسہ والے گئے اور اپنی اپنی ضرورتیں ظاہر کیں لیکن انہوں نے سب کی درخواستیں سن کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ یہاں ایک مدرسہ جامع العلوم بھی ہے اور اس کا کوئی ذمہ دار نہیں اس کے لئے میں دو سو روپیہ سال مقرر کرتا ہوں ۔ لیجئے اور سب کو تو جواب دیدیا اور ہمارے مدرسہ کے لئے دو سو روپیہ سال مقرر کردئے پھر دو سو روپیہ سال برابر آتے رہے جب ان رئیس کا انتقال ہوگیا تو میں نے ان کے ورثہ کو اس چندہ کے قائم رکھنے کے لیے نہیں لکھا ۔ اہل مدرسہ نے کہا بھی کہ لکھ دینا چاہئے لیکن میں نے کہا کہ یہ بے عزتی کی بات ہے چنانچہ نہ یہاں سے لکھا گیا نہ وہاں سے پھر کچھ آیا ۔ میں تو علماء کے لئے ابینٹھ مروڑ ہی کو اچھا سمجھتا ہوں تواضع تو درویشوں کو کرنی چاہئے کیونکہ اس سے دین