خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار
دینی مدار س کے خلاف جو پروپیگنڈا چل رہاہے ،اس کا توڑ کرنا بلاشبہ وقت کی اہم ضرور ت ہے اور الحمدللہ ہمارے اکابراس حوالے سے متحدومتفق اورسرگرمِ عمل ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے خوداحتسابی کو ایک مستقل پالیسی کی شکل میں اپنے نظام میں شامل کرناہوگا۔ ہمارے فضلاء کیا کررہے ہیں اوران کی کارکردگی مختلف حوالوں سے کیاہے؟حکومت اگریہ سوال کرتی ہے تو اس کے مقاصددیگر ہیں ۔لیکن اس سے پہلے ہمیں خو د اپنی اصلاح ،بہتری اور ترقی کے لیے بہت سے سوالات کے جوابات درکارہیں۔
سوالات کے جوابات کے لیے ایک طریقہ توسرسری تخمینہ اوراندازہ ہے۔مثلاً میں اپنے محسوسات کہہ دوں ۔دوسراشخصجودیکھ کررہاہے ،وہ اس کااظہارکردے۔ مگر یہ طریقہ ہمیں درست نتائج تک نہیں پہنچاسکتا۔ اس لیے کہ ہرشخص اپنے مشاہدات کے لحاظ سے بات کرتاہے۔ مثلاً اس سوال کے جواب میں کہ ہمارے فضلاء کی کارکردگی کیاہے ،مدرسے کی حدودمیں قید مجھ ساکوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی اکثریت مدرس بن رہی ہے ۔حال ہی میں تبلیغی سال لگاکر آنے والاکوئی نوجوان فاضل یہ بھی کہہ سکتاہے کہ اکثریت تبلیغ میں نکل رہی ہے۔ عصری تعلیمی اداروں میں امیدواروں کے انٹریولینے والے کوئی محترم یہ گمان کرسکتے ہیں اکثریت اسکولوں میں آرہی ہے۔ اندازوں میں تضا دپیداہونالازمی ہے اورایسی آراء کسی طرح نتیجہ خیز نہیں ہوسکتیں ۔ اس کے برخلاف سروے کا طریقہ جس نتیجے تک پہنچاتاہے وہ چاہے سوفی صدصحیح نہ ہو،مگر صحیح کے قریب قریب ضرورہوتاہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس طرف توجہ کریں اورسروے کے طریقے سے بھرپور طورپر استفاد ہ کریں ۔ سروے کمپنیاں بڑی تعداد میں موجودہیں ۔کسی بھی اچھی اورنیک نام کمپنی کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن راقم کی رائے میں یہ کام اہلِ مدارس کو خود کرناچاہیے اورسب سے اچھی صورت یہ ہے کہ یہ اہم کام وفاق المدارس کی مجلسِ منتظمہ اپنی نگرانی میں انجام دے۔ سروے کاایک شعبہ مستقل طورپر وفاق کے مرکزمیں قائم کردیاجائے ۔جب بھی کسی حوالے سے کوئی سوال پیداہو،اندازوں اورتخمینوں پر اس کافیصلہ کرنے کی بجائے،اس کاجواب اس ٹیم کے حوالے کردیاجائے۔ اس میں غیرجانب دارمیڈیاکے بھی بعض ارکان شامل کرلیے جائیں تاکہ نتائج کامنصفانہ ہونایقینی رہے۔ کسی کے پاس یہ کہنے کاجوازنہ ہوکہ اہلِ مدارس نے خودساختہ اعدادوشمار مرتب کرلیے ہیں۔
سروے میں ایک پروگرامنگ کرنے والی ٹیم ہوتی ہے اورایک میدان میں کام کرنے والی ٹیم۔ سروے کو صحیح تیکنک سے کرنے کے لیے کسی سروے کمپنی سے وابستہ قابل اورماہر شخص کوپروگرامنگ میں شریک رکھاجائے۔میدان میں کام کرنے کے لیے چند محنتی اوردیانت دارافرادکافی ہیں ۔اگر وہ مدارس کے فضلاء ہوں توبہتر ہوگا۔
اس وقت ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء کہاں کہاں مصروف ِکار ہیں اورآیانتائج وثمرات کے حوالے سے ہماری محنت کس حدتک کامیاب ہے،یاکس حدتک اپنے نظام میں اصلاح کی گنجائش ہے تاکہ نتائج مزید بہتر حاصل کیے جاسکیں۔ اس سوال کاجواب پانے کے لیے جب ہم سروے کا طریق استعمال کر یں گے توہمیں کئی ذیل سوالات طے کرناہوںگے ۔
اس کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ ہم جوابات کے لیے کن افراد کاچناؤکریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ تمام فضلاء کا جو لاکھوں میں ہیں ،جائزہ لیاجائے ۔ہمیں ایساپیمانہ اختیارکرناہوگاجس سے ہم صحیح نتیجے کے قریب پہنچ جائیں۔
مثلاًمیر ی رائے میں اس وقت اہم ترین سوال یہ ہے کہ فضلاء کی اکثریت دینی خدمات کی طرف جارہی ہے یادنیوی کاموں کی سمت ۔ اس کاطریقہ یہ ہوسکتاہے کہ ہم دس شہروں سے سو سو فضلاء کو لے لیں ،ان ایک ہزار فضلاء سے سوالات کریں۔مگر یہ طریقہ درست نتیجے تک شاید نہ پہنچائے ،کیونکہ ایسے میں ہم انہی فضلاء کاجائزہ لیں گے جو رابطے میں آسانی سے آسکیں گے اوریقیناایسے حضرات کی اکثریت دینی خدمات ہی میں مشغول ہوگی جبکہ ہمیں یہ دیکھناہی یہ ہے کہ فضلا ء دینی کاموں میں کس حدتک دلچسپی لے رہے ہیں،ہمیں ان فضلاء تک بھی رسائی درکار ہوگی جو بالکل کٹے ہوئے ہیں۔پس درست سروے کاطریقہ یہ ہوگاکہ وفاق المدارس سے گزشتہ پانچ سالوں میں(مدت پانچ کی جگہ تین یا دس سال بھی رکھی جاسکتی ہے) فارغ ہونے والے تمام فضلاء سے رابطہ کیاجائے۔یاملک کے دس یابیس بڑے مدارس کو منتخب کرلیں ۔ ان مدراس سے فارغ ہونے والے تمام فضلاء سے رابطہ کرکے مسئلے کاجائزہ اس طرح کے سوالات کے ذریعے لیا جاسکتاہے۔
٭گزشتہ پانچ سالوں میںان مدارس سے کتنے طلبہ نے دورۂ حدیث کیا؟
٭دورۂ حدیث کرنے والوں میں سے کتنے فی صدطلبہ کُل وقتی دینی خدمات میں مشغول ہیں۔
(کل وقتی سے ۲۴گھنٹے مرادنہ لیاجائے ۔بلکہ اس کاکوئی معیار مقررکرلیاجائے،جومیری رائے میںآٹھ گھنٹے کافی ہوسکتاہے۔اتنا وقت مدرسے یاکسی بھی دینی ادارے کودینے والاکُل وقتی شمار ہونا چاہیے۔اسی طرح دوتین گھنٹے مدرسے کو دینے کے ساتھ امامت وخطابت یاکوئی اوردینی ذمہ داری انجام دینے والا یا کسی دینی تحریک وتنظیم میں لگاہواشخص بھی کُل وقتی شمار ہوناچاہیے۔ )
٭کتنے فیصد فضلاء جزوقتی دینی خدمات میں مصروف ہیں۔
٭کتنے فیصد فضلاء جزو وقتی دینی خدمت بھی نہیں کررہے۔
٭مجموعی تعدادمیںاس تناسب کومعلوم کرنے کے بعد یہ بھی دیکھاجائے کہ
٭ ممتازدرجے میں کامیاب ہونے والوں میں یہ تناسب کتناہے۔
٭جید جدامیں کامیاب ہونے والوں کاتناسب کیاہے۔
٭جید اورمقبول میں یہ تناسب کتناہے۔
پھر دینی خدمات کے مختلف شعبوں کے حوالے سے الگ الگ دیکھاجائے کہ تدریس، تحقیق، افتاء ، مدارس کے انتظام ، دعوت وتبلیغ،ردّ فتن اوراسلامی صحافت وغیرہ کو کتنے فی صد فضلاء نے اختیارکیا۔
یہ بھی دیکھاجائے کہ جو فضلاء دینی خدمات میں نہیں لگے ،ان کے پاس کیا اعذارہیں ؟کیاوجوہ ہیں؟
بڑے شہروں ،چھوٹے شہروں اوردیہاتوں کے دینی مدارس کاالگ الگ اورمشترکہ سروے کرکے بھی ان نتائج کومزید بہتر بنایاجاسکتاہے ۔اگر علاقوں کے لحاظ سے فضلاء کے رجحانات میں کوئی فرق ہے تو سروے پروگرام اس طرح تشکیل دیے جائیں کہ یہ فرق بھی واضح ہوجائے۔ نتائج کوچارٹوں اورگراف کی شکل میں بھی مرتب کیاجائے جیساکہ سروے رپورٹوں کادستورہے۔اس طرح ہم اپنی کارکردگی کو وقتاً فوقتاً مختلف حوالوں سے بہتر اندا زمیں جانچ سکتے ہیں۔
اس تمام محنت کاحاصل یہ نہیں ہوناچاہیے کہ رپورٹیں کسی خاص شخص تک محدود رہیں بلکہ انہیں مدارس کے نمائندہ رسائل وجرائد میں شایع ہوناچاہیے تاکہ علماء برادری حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی محنت اورکوشش میں مصروف رہے اورجہاں ضرورت ہو،وہاں اصلاح کرسکے ۔
اس طریقِ کار کامدارس کو دُہرافائدہ ہوگا۔
(۱) خوداحتسابی کے لیے بھی یہ نہایت مفید ہوگا۔
(۲)اپنی کارکردگی کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کاجواب ٹھوس بنیادوں پردیاجاسکے گا۔ اربابِ مدارس ہر فورم پر کھل کرکہہ سکیں گے کہ ہمارے اتنے فی صد فضلاء تدریس میں ،اتنے تبلیغ میں ، اتنے امامت وخطابت میں ،اتنے عصری تعلیم گاہوں میں اوراتنے سرکاری اداروں میں مصروفِ عمل ہیں۔