Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

19 - 102
ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی
۱۵جولائی کو ترکی کے عوام نے وہ کردکھایا،جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔کیا فوج کی طاقت کو بھی عوام بے بس کرسکتے ہیں ؟کیاعوامی طاقت کی واقعی کوئی حیثیت ہے؟آج تک اس کا ایک ہی جواب تھا۔ نہیں ، ہرگز نہیں۔
کہاجاتا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے کبھی اسلام نہیں آسکتا۔الیکشن کے ذریعے اسلامائزیشن کاخواب کبھی پورا نہیں ہوسکتاچاہے ہم عوام کی اکثریت کوساتھ لے لیں،چاہے ہم الیکشن جیت لیں ،چاہے پارلیمان میں ہمارے ارکان کی اکثریت ہو۔پھر بھی اسلام نہیں آسکتا۔
کیونکہ ہرملک میں طاقت کامنبع فوج ہے۔اسلامی ممالک کی سیکولر افواج امریکاکے تابع ہیں۔وہ کبھی کہیں اسلام نہیں آنے دیں گی۔وہ اسی وقت تک خاموش ہیں جب تک الیکشن میں سیکولرجماعتیں جیتتی رہیں گی۔ جونہی کہیں کوئی اسلامی جماعت برسرِ اقتدارآئی توفوج اس کاتختہ الٹ دے گی۔
یہ باتیں بے بنیاد نہیں۔ ہمارے سامنے ماضیٔ قریب کے دوتلخ تجربات ہیں۔الجزائر میں اسلامک فرنٹ نے بھاری اکثریت سے انتخابات جیتے ،فوج نے انہیں کالعدم قراردے کر اسلام پسندوں کو حکومت کرنے سے روک دیا۔ مصر میں الاخوان کوکامیابی ہوئی اورصدر مرسی حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوگئے مگر جنرل سیسی نے ان کاتختہ الٹ دیااوروہاں دوبارہ سیکولر حکومت قائم ہوگئی۔
بلاشبہ تاریخی تجربات یہی بتارہے تھے مگرترک عوام نے تاریخ بدل دی ۔عین ممکن تھاکہ تاریخ یہاں آکر بھی نہ بدلتی ۔ترکی میں وہی ہوتا،جو الجزائر اورمصرمیں ہواتھا۔طیب اردگان کاوہی انجام ہوتاجو صدرمرسی کاہوا۔وزیراعظم ترکی بن علی یلدرم آج پابندِ سلاسل ہوتے۔ ارکانِ پارلیمان پر بغاوت کامقدمہ چلانے کی تیاریاں ہورہی ہوتیں۔ عالم اسلام خون کے آنسو رورہاہوتا۔سب کچھ عین ممکن تھا۔ہم توبُری خبریں سننے اوران پررونے ہی کے عادی رہے ہیں ۔ ایک سانحہ ختم نہیں ہوتاکہ دوسرا رونما ہوجاتاہے۔مگر ترک عوام نے تاریخ بدل دی ہے۔ انہوںنے دکھادیاہے کہ عوامی طاقت  فوج کی طاقت سے بڑھ کرہے۔ انہوںنے ثابت کردیاہے کہ اگر فوج عوامی امنگوں کاخون کرنے کی کوشش کرے توبازی الٹ بھی سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیامصر اورالجزائر کے مسلمانوں کے جذبۂ ایثاروقربانی میں کوئی کمی تھی ؟یا وہاں کی فوج ترکی سے زیادہ طاقت ورتھی؟جو فوج وہاں کامیاب ہوگئی ،وہ ترکی میں اپنے ہدف تک کیوں نہ پہنچ سکی ۔اورجوعوام الجزائر اورمصر میں اپنے حق سے محروم کردیے گئے،وہ ترکی میں اپنے حق کادفاع کرنے میں کیسے اورکیونکر کامیاب رہے۔ یہ بہت ہی اہم سوال ہے اور اس کے صحیح جواب کو ہمارے آئندہ لائحہ عمل میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ 
جہاں تک میںسمجھاہوں ،مصر اورالجزائر کاقضیہ کئی اعتبار سے ترکی سے مختلف دکھائی دیتاہے۔
مصر میں الاخوان اورالجزائر میںاسلامک فرنٹ نہ صرف ایک بے لچک موقف رکھتے تھے بلکہ اس کابرملا اظہار بھی کرتے تھے۔بنیادی طورپر الاخوان اوراسلامک فرنٹ الجزائر کے زعما ء انقلابی تھے۔وہ ایک مدت تک انقلابی راستے سے اسلام کوبالادست کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر جواب میں حکومت کی سختی اورشدت نے انہیں باربار مجروح اورمنتشر کیا۔ جس کے بعد انہوںنے بحالتِ مجبوری الیکشن کاراستہ اپنانے پر رضامندی ظاہر کی۔وہ سیاست میں آئے اورانہی لوگوں کوجوپہلے انقلاب اورقوت کے ذریعے اسلام نافذ کرناچاہتے تھے ،یہ سبق پڑھایاکہ اب ہم الیکشن کواپناہتھیار بنائیں گے۔اس مسلسل ذہن ساز ی کے نتیجے میں دونوں ممالک میں اسلام پسند طبقہ الیکشن میں فعال ہوگیا جبکہ عوام کی بہت بڑی تعداد انتخابات سے نالاں اورگریزاں رہی۔اسلام پسندوں کاتناسب سیکولر طبقے سے زیادہ تھا،اس لییجب انتخابات ہوئے تو یہ جماعتیں جیت گئیں۔ملک کی اکثریت پہلے بھی خاموش تھی ، اب بھی خاموش رہی،انہیں امن سے مطلب تھاچاہے کسی بھی طرح حاصل ہو۔ اس کے بعدجب فوج نے مداخلت کرکے انتخابی نتائج پرڈاکاڈالاتویہ اکثریت اس وقت بھی خاموش تماشائی رہی۔کامیاب جماعتوں کی اصل قوت اوراسلام پسندی کے حوالے سے فعال لوگ اکثریت میں نہیں تھے۔ انہوںنے اپنی حدتک مزاحمت کی مگر فوج نے انہیں کچل دیا۔
ترکی کے اسلام پسند زعماء نے ان تجربات سے سبق سیکھا۔سیاستِ زمانہ کوزیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھا۔ انقلاب پسند ی کی جگہ فی زمانہ ووٹ کی طاقت اورجمہوری اقدار کووہی اہمیت دی جو معاشرے میں دی جاتی ہے۔ کٹر مسلمان ہوکربھی انہوںنے اپنی اسلام پسندی کے رسوخ کا اظہار نہیں کیااور اسے لوگوں کی حمایت کے حصول کاعنوان نہیں بنایا۔ انہوںنے انصاف،امن، خدمتِ خلق،ماحولیاتی صفائی، صحت اورتعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لیے معاشرے میں اپنا اعتماد قائم کیا۔ اسلامی اقدار کے تحفظ کااظہارکیا مگر ایک مناسب پیرائے میں۔وہ جب بھی اورجس سطح پربھی انتخابات میں کامیاب ہوئے،وہاں اپنے وعدوںکوپوراکیااورعوامی توقعات پر اس طرح پورے اترے کہ سوائے ایک محدودمتعصب طبقے کے سب نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔اس طرح انہوںنے اپنی طاقت کو اسلام پسند عوام تک محدودنہیں کیا بلکہ عمومی اعتماد،احترام اورمحبت کا مقام حاصل کرلیا ۔
الجزائر اورمصر میں کامیابی کے بعد اسلام پسندوں نے فوجی بغاوت کے امکان کو ذہن میں نہیں رکھا تھا یااگر ایساکوئی خدشہ انہیں تھاتواس کی مناسب پیش بندی نہیں کی گئی تھی۔
ترکی کے اسلام پسند زعماء حکومت بنانے کے بعد فوجی انقلاب کی روک تھام کی پیش بندی کے لیے ایک مربوط اورگہری حکمتِ عملی پر کاربند تھے۔انہوںنے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ فوج میں اپنے ہمدردپیداکرلیے تھے۔ فوج کی ہر اطلاع انہیںبروقت مل رہی تھی۔ دوسری طرف عوام سے ان کاہر پل رابطہ تھا۔ طیب اردگان ایوانِ اقتدارمیں محصورہوکر نہیں بیٹھے بلکہ عوام کواپنے ساتھ مربوط رکھا۔ 
یہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی کہ باغی افسران سیکولر ازم کانفاذ چاہتے تھے یا فتح اللہ گولن کے تصورِ اسلام کے داعی تھے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ۱۵جولائی کوجب ترک افسرانِ فوج نے بغاوت کی، تو پوری فوج اس میں شامل نہ تھی۔ایک بڑا طبقہ حکومت کاہمدردبھی تھا۔ اس کے باوجود یہ عین ممکن تھاکہ استنبول پر باغی دھڑے کاکنٹرول ہوجاتااوراسے کامیاب دیکھ کر باقی فوج بھی اس کے ساتھ مل جاتی مگر طیب اردگان نے عوام کو  اپنے ہاتھ میںرکھااور ان کی طاقت کوفوری طورپرکیش کیا۔ جب انہوںنے وڈیوکال کے ذریعے عوام کو سڑکوں پر آنے کاکہاتو انہیں کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کرنا پڑی۔ایک اشار ے پر لاکھوں لوگ سڑکوں پرآکر باغیوں کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ چکے تھے۔انہوںنے جواب میں اسلحہ نہیں اٹھایا مگر ان کا غیرمسلح احتجاج ہی ان کی سب سے بڑی طاقت اوران کے برحق ہونے کا ثبوت بن گیا۔ان کی سرفروشی کے سامنے باغیوں کی طاقت بے حیثیت ہوگئی ۔ٹینک ،ہیلی کاپٹر اورتوپیں بے اثر ہوگئیں۔پھر ساری دنیانے دیکھاکہ ترک نوجوان باغیوں کوبیلٹوں سے پیٹ رہے ہیں۔ 
اسلام کی جانب ترکی کی کامیاب پیش رفت دیکھ کرمیں سوچتاتھاکہ طاغوتی طاقتیں آخر اسے کب تک برداشت کریں گی، یہ دھڑکالگا رہتاتھاکہ مصر جیسا سانحہ یہاں بھی پیش نہ آجائے ۔ اب یہ دھڑکا دورہوگیاہے۔ ترکی کے قائم مقام آرمی چیف کایہ بیان تاریخ کی صدامحسوس ہوتاہے کہ اب ترک میں بغاو ت کاباب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیاہے۔ترکوں نے یہ ثابت کردیاہے کہ سچے مسلمان نہ صرف ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آسکتے ہیں بلکہ وہ عوامی طاقت اورمناسب حکمتِ عملی کے ذریعے اس اقتدار کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں۔ ہم ترک عوام کو ان کی شاندارکامیابی پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اورتشکروامتنان کے ساتھ اللہ رب العزت کی حمد بیان کرتے ہیں جس نے عالم اسلام کوایک بڑے سانحے سے بچاکر چراغِ امید روشن رکھنے کی نئی ہمت عطا کی۔   
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter