Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

9 - 102
سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱)
۱۷نومبر۱۹۲۲ء وہ تاریخ تھی جب ترکی میںعملاً خلافت کاخاتمہ ہوا۔ اس دن سلطان وحیدالدین کی جگہ سلطان عبدالمجید ثانی کی تخت نشینی ہوئی جس کی حیثیت مصطفی کمال پاشاکے ایک قیدی سے زیادہ کچھ نہ تھی۔اس کے صرف تین دن بعد۲۰نومبر ہماری تاریخ کاوہ سیاہ دن تھاجب اسلام کوزندہ درگورکرنے کے لیے لوزان کانفرنس منعقد کی گئی۔ 
معزول کیاجانے والاخلیفہ وحیدا لدین ترکی کاآخری بااختیار خلیفہ تھا۔ جولائی ۱۹۱۸ء میں جب وہ مسندِ خلافت پر بیٹھا تواس کی عمر59سال ہوچکی تھی ۔اس وقت جنگِ عظیم اول کے آخری لمحات تھے۔ اس نئے مسند نشین کی آنکھوں کے سامنے ترکی دم توڑ رہاتھا۔جنگ عظیم کا ہولناک انجام سامنے تھا۔ ترکی کے واحداتحادی جرمنی کوشکست ہوگئی تھی ۔عرب ، شام اورعراق ہاتھ سے نکل چکے تھے۔شمالی شام اورجنوبی ترکی پر فرانس کی فوجیں قابض ہوگئی تھیں۔استنبول اوراناطولیہ( موجودہ ترکی کے ایشیائی حصے) کے کچھ اضلاع کے سواکچھ بھی نہیں بچاتھا۔اب ترکی کے پاس بھی ہتھیار ڈالنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔
30اکتوبر 1918ء کوعارضی جنگ بندی طے ہوگئی ۔ ایسے میں برطانوی جنرل لیبنی استنبول پہنچا اور خلیفہ وحیدالدین سے گفتگو کے دوران ترک فوج کے جرنیل مصطفی کمال پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چھٹی آرمی کورکی کمان مصطفی کمال کود ی جائے۔
خلیفہ کے سامنے اس وقت سب سے بڑی آزمائش کسی طرح ترکی کو بچاناتھا جس کے اہم ترین ساحلی نقاط حتیٰ کہ دارالخلافہ پر بھی اتحادی افواج کھڑی تھیں ۔خلیفہ نے جب دیکھا کہ اتحادی بھی مصطفی کمال پراعتماد کرتے ہیں تواس بحران سے نکلنے کے لیے اسے ایک عجیب تدبیر سوجھی ۔اس نے سوچا کہ وہ خود وقت گزاری کے لیے یورپی طاقتوں کے مطالبات مانتارہے،تاکہ منصبِ خلافت ہاتھ سے نہ جائے۔ مگردوسری طرف مصطفی کمال سے خفیہ طورپریہ طے کرلے کہ وہ ترکی کے آزاد علاقے میں جاکرخلیفہ کے خلاف نمائشی بغاوت کردے۔ چونکہ اس طرح قائم ہونے والی باغی حکومت کایورپی اتحادسے کوئی معاہدہ نہیں ہوگا ،اس لیے وہ ایک آزاد ترکی کے لیے جدوجہد کرسکے گی۔یورپی اتحاداس تحریک کونظر انداز نہیں کرسکے گا اوراسے مجبورہوکر صلح کی شرائط نرم کرناپڑیں گی۔
چنانچہ خلیفہ نے مصطفی کمال پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے یہ مہم سونپ دی اوراس کے ذمے لگایا کہ اناطولیہمیں جاکرایک باغیانہ تحریک کھڑی کر ے جومغربی طاقتوں سے صلح کومسترد کرکے اپنی سرزمین کی مکمل آزادی کامطالبہ کرے۔مصطفی کمال نے اس ذمہ داری کو نہایت مسرت کے ساتھ قبول کیا،کیونکہ جس کامیابی کے وہ خواب دیکھا کرتا تھا،اس کی چابی خلیفہ نے اس کے ہاتھ میں تھماد ی تھی۔وہ خلیفہ کاخفیہ لائحہ عمل لے کر اناطولیہ پہنچ گیا۔اس دوران یونان نے ترک علاقے ازمیر پر قبضہ کرلیاتھا۔یہ اطلاع ملتے ہی کمال نے ترک جوانوں کوجمع کرکے  ایک قرارادادپاس کرتے ہوئے اعلان کیاکہ ترک عوام غیرملکی تسلط برداشت نہیں کریں گے ۔
مغربی طاقتوںسے یہ حقیقت مخفی نہ رہی کہ مصطفی کمال کو خلیفہ نے کس مقصد کے لیے اناطولیہ بھیجا ہے۔ انہوںنے ایساعجیب کھیل کھیلاکہ خلیفہ کی چال الٹی پڑگئی۔اس سلسلے میں برطانیہ نے یہ حکمتِ عملی  طے کی کہ مصطفی کمال کو حقیقتاً باغی بنادیاجائے اور اس بغاوت کو کامیاب کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے خلیفہ کی اتحادیوں کے سامنے عاجزی وبے بسی ظاہر ہو ، جبکہ یورپی طاقتوں کی طرف سے مصطفی کمال کی مخالفت کی جائے تاکہ کمال کی ’’جرأت و بسالت‘‘ کا تاثر نمایاں ہوجائے ۔ چنانچہ یورپی اتحاد نے  اناطولیہ میں مصطفی کمال کے تقررپرناراضی کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اس کے اختیارات سلب کرکے اسے استنبول واپس بلایاجائے۔
اُدھرمصطفی کمال حقیقتاً اس قابل ہوگیاتھاکہ سچ مچ خلیفہ کاتختہ الٹ سکے ۔اس نے قوم کوپیغام دیا:’’عوام پر اورفوج پر یہ فرض ہے کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ، عثمانی سلطان اورخلیفہ کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کردے۔‘‘خلیفہ نے کمال کی گرفتاری کے احکام جاری کیے مگراس پر قابوپانااب ناممکن ہوچکا تھا۔ اس طرح ایک ہی وقت میں ایک مملکت میں دو حکومتیں وجود میں آگئیں۔ایک طرف استنبول میں خلیفہ کی حکمرانی تھی اوردوسری طرف انقرہ میں مصطفی کمال کی جمہوری حکومت۔
16مارچ1920ء کو برطانوی فوجیں حالات کوسنبھالنے کے عنوان پر استنبول میں داخل ہوگئیں۔سلطان محمد فاتح کے استنبول فتح کرنے کے بعدپہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کوئی غیرملکی فوج مسلمانوں کے اس دارالخلافہ میں گھسی ہو۔برطانوی افسران کے دباؤپرخلیفہ نے ایک نئی حکومتی مجلس تشکیل دی جس نے گھرگھر تلاشی لے کراورجیل خانوں تک کو کھنگال کرمصطفی کمال پاشا کے حامیوں کو گرفتار کیا۔برطانیہ نے اس نئی حکومت پراپنے نگران مقرر کرکے اعلان کرایاکہ لوگ خلیفہ کی اطاعت کریں۔مگران کوششوں کااس کے سواکوئی نتیجہ نہ نکلاکہ لوگ خلیفہ کو برطانیہ کاآلہ کارسمجھنے لگے۔ان میں ترک قومیت کا جذبہ مزید پختہ ہونے لگا۔یہی برطانیہ کا مقصد تھا۔ یہ تاثر عام ہوگیا کہ خلیفہ سامراج کا ایجنٹ ہے ،جس کے بس میں کچھ بھی نہیں،جبکہ مصطفی کمال سامراجیت کے خلاف شمشیرِ بے نیام ہے۔ استنبول اوراس کے مضافات میں نوجوان رضاکاروں کی بھرتی شروع ہوگئی تاکہ اتحادی طاقتوں سے ایک اور جنگ لڑی جاسکے۔
یورپی اتحاد ایک ملک میں قائم ان دونوں حکومتوں کی کارکردگی کو بغوردیکھ رہاتھاکہ ان میں سے کس کاغلبہ ان کے مقاصد کے لیے زیادہ مفید ہوسکتاہے۔انہوںنے خلیفہ کو کچھ اختیارات دے دیے جن سے فائداٹھاکرخلیفہ کی فوج نے کردستان پر فوج کشی کی اور اسے دوبارہ ترکی میں شامل کرلیا۔ اس فتح سے خلیفہ کی دھاک دوبارہ بیٹھ گئی اورلوگ کمال کاساتھ چھوڑکر خلیفہ کے گردجمع ہونے لگے۔
اب خلیفہ کی فوج ،انقرہ کی طرف روانہ ہوئی تاکہ مصطفی کمال کی بغاوت کوکچلا جاسکے۔ مگر اسی دوران کمال کے حامیوں کو خلیفہ اوریورپی اتحاد کے درمیان معاہدۂ سیورے کی تفصیلات کا پتا چل گیا اور انہوں نے فوری طورپرانہیں نشر کرکے یہ ڈھنڈوراپیٹ دیاکہ خلیفہ نے ترکوں کی آزادی کا سودا کرلیا ہے۔اس سے پانسایکدم پلٹ گیا۔عوام اورفوج کی پوری حمایت کمال کے ساتھ ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ آخر معاہدۂ سیورے کیاتھا؟اس کی تشہیر ہوتے ہی خلیفہ کو غدارکیوں تصور کرلیا گیا؟ ہوایہ تھا کہ اتحادی خلیفہ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ان کی من پسند شرائط پر صلح کرلے ورنہ اتحادی فوجیں خلافت کاخاتمہ کردیں گی۔مجبورہوکرخلیفہ کے نمائندوںنے  10اگست 1920ء کو معاہدۂ سیورے  کوقبول کرنے پرآمادگی ظاہر کردی جس میں کہاگیاتھاکہ استنبول کے سوا،ترکی کے باقی تمام علاقے ،اتحادیوں کے قبضے میںدے دیے جائیں ۔ازمیر اور اس کے آس پاس کے پانچ اضلاع ،پانچ سال تک یونان کے قبضے میں رہیں ۔ ترکی ان تمام مقبوضات سے باضابطہ طور پر دست برداری کااعلان کرے جو عالمی جنگ میں اس سے الگ ہوئے ہیں۔
معاہدے کوخلیفہ کی منظوری کے بغیرقانونی حیثیت نہیں مل سکتی تھی۔خلیفہ غوروفکر کے بہانے اس پردستخط کرنے کوملتوی کرتارہا،یوں اس نے معاہدے کی توثیق کی نوبت نہیں آنے دی ۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter