Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

91 - 102
یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲)
یورپی حکام نے ترک صدرِ اعظم سے پوچھا: ’’آپ جزیرۂ کریٹ کس قیمت پر فروخت کرنا پسند کریں گے؟‘‘ صدرِ اعظم نے جواب دیا:’’اسی قیمت پر جس پر خریداہے۔‘‘مطلب یہ تھاکہ ہم نے نسل درنسل جہاد کرکے اسے فتح کیا ہے۔ آپ کو اتنی ہی مدت جنگ لڑناپڑے گی۔
صدرِ اعظم سے یہ بھی پوچھاگیاـ:’’اس وقت دنیا کی سب سے طاقت ورحکومت کون سی ہے؟‘‘
جواب دیا:’’دولتِ عثمانیہ ! کیونکہ آپ اسے باہر سے تباہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اورہم اسے اندر سے کمزورکررہے ہیں۔اس کے باوجود سب مل کر بھی اسے ختم نہیں کرپارہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مفادات کے جھگڑوں سے قطعِ نظر یورپی دنیا اس نکتے پر متفق تھی کہ جوں ہی موقع ملے خلافتِ عثمانیہ کاخاتمہ کردیا جائے۔کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ یورپی قوانین اورمغربی تہذیب وثقافت کو ترکی میں جوں کاتوں نافذکرنا اس لیے ناممکن ہے کہ ترکی کے آئین ودستورکی بنیاد کتاب اللہ اورسنتِ نبوی ہے۔  
اسی لیے برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈکلارنڈون نے 1865ء میں واضح طورپرکہا ـ:’’ عثمانیوں کی اصلاح کاایک ہی طریقہ ہے ،وہ یہ کہ انہیں روئے زمین سے بالکل مٹادیاجائے۔‘‘
 سلطان عبدالعزیزنے یورپی طاقتوں کے دباؤپرعوام کوجو حقوق اورداخلی آزادی مہیاکی،اس سے فائدہ اٹھا کر سلطنتِ عثمانیہ کے بعض یہودیوں اورنصرانیوں نے ترکی میں ایسی تنظیموں اور جماعتوں کی داغ بیل ڈالی جو بظاہر علمی و ادبی ترقی کے لیے کام کر رہی تھیں مگر درحقیقت ان کے مقاصد سیاسی ومذہبی تھے۔ ان کے ساتھ ہی مشنری اداروں کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئیں اورانہوںنے اپنی سرپرستی میںعلوم وفنون کی اشاعت کی تنظیمیں بھی قائم کردیں جیسا کہ امریکی مشنری اداروں کی مدد سے ترکی کے دو نصرانیوں پطرس البستانی اور ناصیف یازجی نے ’’جمعیت العلوم والفنون‘‘ تشکیل دی جس کامقصد بظاہر یورپی علوم وفنون کی اشاعت اورترکی کے یورپ سے روابط بہتر بنانا تھا۔ شروع میں ایسی جماعتوں کی طرف مقامی عیسائی ہی راغب ہوئے چنانچہ جمعیت العلوم والفنون کی تاسیس کے پہلے دوسالوں میں اس کے ارکان صرف پچاس تھے اوروہ سب شام کے عیسائی تھے ۔اسی طرح 1850ء میں ترکی کے کچھ عیسائیوںنے ’’الجمعیۃ الشرقیۃ ‘‘ کی بنیا دڈالی،اس کے ارکان بھی عیسائی ہی تھے۔ان نصرانی جماعتوں کی کوشش یہی رہی کہ علمی وفنی سرگرمیوں کی آڑ میں پورے سلطنتِ عثمانیہ میں پھیلے ہوئے عیسائیوں کومتحد اورمنظم کرلیاجائے۔ترکی کے مسلمان ابتداء ہی میں سمجھ گئے تھے کہ ان جماعتوں کامقصد ملک میں مذہبی منافرت پھیلاناہے اس لیے وہ ان کے کسی فریب میں نہ آئے ۔ ان کوششوں کورائگاں دیکھ کر1856ء میں انہی عناصرنے ’’الجمعیۃ العلمیۃ العربیۃ‘‘ قائم کی جس میں مسلمانوں کو بھی شریک کیاگیا تاہم کوشش کی گئی کہ زیادہ اہمیت دروز اورشیعوںکو دی جائے۔ 
استنبول میں بھی کچھ تنظیمیں کام کرنے لگیں جن کی باگ ڈوریہود الدونمۃ کے ہاتھ میں تھی ، مغربیت سے متاثربہت سے ترک نوجوان تیزی سے ان میں شامل ہوگئے۔جو جماعتیں زیادہ آزادی پسند خیالات کی تشہیرکررہی تھیں،یورپ نے ان کی زیادہ حوصلہ افزائی کی اورانہیں اپنے شہروں میں مراکز قائم کرنے کاموقع دیا۔چنانچہ سیکولرازم کے حامی احمد رضا بیگ کی قائم کردہ ترک نوجوانوں کی تنظیم ’’جمعیۃ الترکیا الفتاۃ‘‘کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں تھا جبکہ اس کی شاخیں سلانیک ، برلن اور استنبول میں تھیں۔ یہودیو ں کاخفیہ ادارہ فری میسنری ان تمام جماعتوں کی پشت پناہی کررہاتھا۔ ان جماعتوں کی دعوت یہ تھی کہ مغربی افکاراوریورپی تہذیب وتمدن کواپنایاجائے اور خلافتِ عثمانیہ کو ختم کیاجائے جواس ہدف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔یہ ترک نوجوان ،’’ترک‘‘ قومیت کے تعصب کوبھی ہوادے رہے تھے جس سے خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت عرب صوبوں کو ترکی پر ایک بوجھ باورکرارہے تھے۔ اس طرح ترک عرب منافرت بڑھ رہی تھی۔
قوم پرست تر ک نوجوان ادبی وسیاسی فضا میں پروان چڑھے تھے اور تقریباً سبھی صحافی ،ادیب یاشاعرتھے۔ان نوجوانوں پر فرانس اوراٹلی کے انقلاب کاغیرمعمولی اثرتھا۔فرانس کا جمہوری انقلاب اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ابھراتھا،جبکہ انیسویں صدی عیسوی کے دوران اٹلی میں ماٹزینی (1805ء تا 1872ء )نے وطنیت (فاشزم ) کی تحریک کی داغ بیل ڈال دی۔ یہ تحریک فرانس پر نپولین بوناپارٹ کے قبضے اور اٹلی کے حصے بخرے کرنے کے ردِ عمل میں ابھری تھی ۔اگرچہ 1814ء میں ’واٹرلو‘ کے معرکے میں نپولین کی شکست کے بعد یورپی ممالک نے ’ویانا‘ کانفرنس میں اٹلی کو آزاد ملک مان لیاتھا مگراس کے صوبہ سردانیاکو الگ ریاست کی حیثیت دے دی گئی تھی ،جزیرۂ سسلی اور نابولی فرانس کے بوربون شہزادوں کے حوالے کردیے گئے تھے، وینس سمیت اٹلی کے بیشتر علاقے آسٹریا کا حصہ تسلیم کرلیے گئے تھے۔یوں اٹلی کا شاہی خاندان ایک محدود رقبے کے ساتھ،فرانس اور آسٹریا کے رحم وکرم پررہ گیا۔ 
 ماٹزینی اٹلی کے زوال سے دل گرفتہ اوراس کی سابقہ شان وشوکت کی بازیافت کا علم بردارتھا ۔ اس کا خیال تھاکہ شاہی نظام فرسودہ ہوچکاہے لہٰذا اٹلی کو مضبوط کرنے کے لیے یہاں بھی جمہوری نظام نافذ کرنا ضروری ہے۔اس نے قوم کو یکجا کرنے کے لیے ’’وطینت ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ انقلابی خیالات کی پاداش میں اسے 1830ء میں جلاوطن کردیا گیا۔ وہ پہلے فرانس اورپھر سوئزرلینڈ پہنچا اور وہاں اپنے ہم خیال ساتھیوں کومنظم کرکے 1832ء میں’’نوجوانانِ اٹلی ‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اٹھارہ برس کی جلاوطنی کے دوران وہ اٹلی میں اپنے افکار کی اشاعت کرتارہااور لاتعداد رضاکار تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آخر 1848ء میں وہ وطن واپس آیا جہاں جمہوریت کے لیے فضا ہموارہوچکی تھی۔ یہاںاس نے صفِ اول کے سیاسی رہنما کے طورپرملک سے بادشاہت ختم کرکے جمہوری انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔مگر فرانس نے نئی حکومت کوماننے سے انکارکرتے ہوئے اٹلی پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں مارٹزینی کو پھر ملک سے فرارہوکرپہلے لندن اورپھر سوئزرلینڈ میں پناہ لینا پڑی۔
مگرماٹزینی کے افکار نے اطالوی شاہی خاندان میں وطنیت کی روح پھونک دی تھی ،اس لیے آخر کار سردانیا کے شہزادے فکتورا مانوائیل دوئم نے1861ء میں اٹلی کو متحد کر دکھایا۔اگرچہ ماٹزینی کا ارمان پورا نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ اپنے وطن میں بادشاہت نہیں ،جمہوریت دیکھنا چاہتا تھا، مگر اٹلی کے دوبارہ طاقت پکڑنے کا سہرا اِسی کے سر مانا جاتا ہے۔
اٹلی کے دوبارہ روبہ عروج ہونے سے بعض جدت پسند ترک نوجوان،جوپہلے انقلابِ فرانس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، بے حد متاثر ہوئے۔ انہوںنے زوال پذیر ترکی کو بام عروج پر لے جانے کامنشورپیش کرکے 1865ء کے دوران استنبول میں ایک خفیہ جماعت’’اتفاق الحمیۃ‘‘ کی بنیاد رکھی جس کاطریقِ کار ’’نوجوانانِ اٹلی ‘‘ کے مشابہ تھا۔ ان بانی نوجوانوں میں ترک ادیب وشاعر نامق کمال،محمد ضیاء اورعلی واسعی کے نام قابلِ ذکرہیں۔
بہت جلد یہ تینوں پیر س جاکر ’’جمعیت ترکیاالفتاۃ‘‘ کے لیڈروں سے ملے اوران سب کے اشتراک سے ایک نئی تنظیم ’’العثمانیوں الجدد‘‘(جدید عثمانی) وجود میں آئی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter